Inquilab Logo

بنگال میں بی جے پی کو ملے گی سبقت؟

Updated: April 17, 2024, 12:45 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

جلپائی گوڑی کی ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ممتابنرجی کا یہ گلہ کرنا کہ ان کی حکومت عوام کی فلاح وبہبود کے لئے دن رات کام کرتی ہے اور اس کے باوجود شمالی بنگال کے لوگ بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں ،دیدی کی فکرمندی ظاہر کرتا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

اس بار مغربی بنگال میں  لوک سبھا انتخابات بے حد دلچسپ ہونے والے ہیں ۔ مختلف گودی ٹی وی چینلز کے ذریعہ ووٹروں  کے رجحان کا پتہ لگانے کیلئے کرائے گئے قبل از انتخاب سروے میں  بھارتیہ جنتا پارٹی کو ترنمول کانگریس پر واضح سبقت ملتی نظر آرہی ہے جو یقیناً ممتا بنرجی کے لئے بری خبر ہے۔ پرشانت کشور نے بھی یہ پیشن گوئی کردی ہے کہ اس بار بی جے پی بنگال میں  سب سے زیادہ سیٹیں  حاصل کرنے جارہی ہے۔پرشانت کشور کی انتخابی حکمت عملی کے نتیجے میں  ہی ترنمول کانگریس نے ۲۰۲۱ء میں  ۲۹۴؍ اسمبلی سیٹوں  میں  سے ۲۱۳؍سیٹیں  جیتی تھیں  اور اس کے ووٹوں  کا تناسب تقریباً ۴۹؍ فیصد تک جاپہنچا تھا۔ پرشانت کشور کی انتخابی پیشن گوئیاں  شاید ہی کبھی غلط ثابت ہوئی ہیں ۔ بی جے پی کی سیٹوں  میں  اضافہ اور ترنمول کانگریس کی سیٹوں  میں  مزید گراوٹ کی پیشن گوئی سن کرممتا بنرجی کا فکر مند ہونا فطری امرہے۔
 پچھلے ہفتے ممتا بنرجی نے جلپائی گوڑی کی ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جو بات کہی وہ ان کے خوف اور خدشات کی غمازی کررہی تھی۔ انہوں  نے یہ گلہ کیا کہ ا ن کی حکومت عوام کی فلاح وبہبود کے لئے دن رات کام کرتی ہے اور اس کے باوجود شمالی بنگال کے لوگ اس بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں  جو صرف مذہبی نعرے بازی کرتی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ممتا کو بھی لگنے لگا ہے کہ گودی میڈیا کی انتخابی پیشن گوئیاں  صحیح ثابت ہونے جارہی ہیں ؟ کیا بی جے پی کی سیٹیں  ۱۸؍سے بڑھ کر ۲۵؍ہوجائیں  گی اور کیا ترنمول کانگریس کی سیٹیں  ۲۲؍سے گھٹ کر ۱۸؍رہ جائیں  گی؟ گودی میڈیا کے متعصبانہ پری پول سروے سے قطع نظر اس بار بنگال میں  ترنمول کانگریس اور بی جے پی میں  کانٹے کی ٹکر ہونے کی توقع ہے۔ ممتا بنرجی نے اپوزیشن پارٹیوں  کی بی جے پی کے خلاف ایک متحدہ محاذ کی تشکیل میں  اہم کردار ادا کیا تھا۔ اتحاد کا’’انڈیا‘‘نام بھی انہی کا تجویز کردہ تھا۔لیکن بعد میں  انہیں  نہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں  نے صوبے کی ۴۲؍کی ۴۲؍ لوک سبھاسیٹوں  کے لئے اپنے امیدواروں  کے ناموں  کا یک طرفہ طور پر اعلان کرکے اتحادکا گلا گھونٹ دیا۔دیدی نے بنگال میں  اتحاد سے کنارہ کشی کیوں  اختیار کی اس راز سے آج تک پردہ نہیں  اٹھ سکا۔ کانگریس اورلیفٹ پارٹیوں  کے درمیان سیٹوں  کی تقسیم پر سمجھوتہ ہوگیا ہے پھر بھی انتخابی مقابلہ سہ طرفہ نہیں  ہوگا: اصلی لڑائی ترنمول کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہی ہوگی۔ 
 مختلف گھوٹالوں  میں  ملوث ہونے کے سبب صوبائی وزیر وں  اورترنمول پارٹی کے لیڈروں  کی گرفتاریوں  کی وجہ سے ممتا پہلے سے ہی کسی حد تک دفاعی پوزیشن میں  تھیں ۔ بی جے پی نے سندیش کھالی کو بڑا انتخابی ایشو بناکر ان کے مصائب میں  یقیناً اضافہ کردیاہے۔ چونکہ سندیش کھالی تنازعے کا کلیدی ملزم شیخ شاہجہاں  نام کا ایک شخص ہے اس لئے بی جے پی کو’’ممتا کے راج میں  ہندو ؤں  کی عورتیں  اور املاک غیر محفوظ ہیں  ‘‘کے فرقہ وارانہ بیانیہ کو فروٖغ دینے کا بہانہ مل گیاہے۔ مذہبی تقسیم کی سیاست کے ذریعہ ہی صوبے میں  بی جے پی کی طاقت میں  اضافہ ہوا ہے اور ان انتخابات میں  بھی پارٹی اپنا آزمودہ ہندو۔مسلم کارڈکھیل سکتی ہے۔ پچھلے کئی برسوں  سے بنگال کے مختلف علاقوں  میں  رام نومی کے موقع پر دنگے بھڑک اٹھتے ہیں ۔ اس بار رام نومی ۱۹؍ اپریل کو پہلے مرحلہ کی ووٹنگ کے دو دن قبل ہے اور ممتا کو ڈر ہے کہ بی جے پی انتخابی فائدے کیلئے اس موقع پر فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کرسکتی ہے۔ممتا نے اعلان کردیا ہے کہ اگر بنگال میں  کہیں  بھی ہندو مسلم فساد ہوا تو الیکشن کمیشن اس کے لئے ذمہ دار ہوگا۔ 
 مرکزی جانچ ایجنسیوں  کا عتاب جھیلنے کی وجہ سے بھی ترنمول کانگریس کے حوصلے ذرا پست ہوگئے ہیں ۔ممتا بنرجی بار بار الیکشن کمیشن پر ان کی پارٹی کے ساتھ متعصبانہ اور مخاصمانہ سلوک کرنے کا الزام لگارہی ہیں ۔ صاف ستھرے انتخابات کا تقاضہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کو یکساں  طور پر ہموار زمین (level playing field) مہیا کی جائے جو ترنمول کو حاصل نہیں  ہے۔
 بنگال سے زیادہ سے زیادہ سیٹیں  جیتنے کی خاطر خودوزیر اعظم مودی پچھلے چند ہفتوں  میں  انتخابی پرچار کے لئے چار بار صوبے کادورہ کرچکے ہیں ۔ پچھلے ہفتے وزیرداخلہ امیت شاہ بھی میدان میں  اتر گئے۔ سی اے اے کے نفاذ سے بی جے پی کو متوا برادری کی اکثریت کی حمایت حاصل ہونے کی توقع ہو۔ متوا برادری بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے بنگال میں  آبسنے والے مہا دلتوں  کی ایک جماعت ہے۔ ڈھائی سے تین کروڑ کی آبادی پر مشتمل متوا ذات کے لوگ ندیا، شمالی چوبیس پرگنہ، ہوگلی اور شمالی بنگال کے چند اضلاع میں  آباد ہیں  اوردرجن بھر لوک سبھا سیٹوں  پر ان کا ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لئے سی اے اے کے نفاذ کااعلان اس الیکشن میں  گیم چینجر بن سکتا ہے۔ بنگال کی کل آبادی میں  مسلمانوں  کی تعداد ۳۰؍ فیصد ہے۔ ۲۰۲۱ء میں  مسلم رائے دہندگان نے اپنا سارا ووٹ ممتا کی جھولی میں  ڈال دیا تھا۔دیدی کو امید ہے ان کا یہ وفادار ووٹ بینک ایک بار پھر ان کی نیا پارلگادے گا۔ لیکن اگر متوا برادری نے بھی اظہار تشکر کے طور پر اپنا سارا ووٹ بی جے پی کی جھولی میں  ڈال دینے کا فیصلہ کرلیا تو ترنمول کے لئے راہ دشوار ہوجائے گی۔ 
  بی جے پی کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کے پاس ممتا بنرجی کے قدو قامت کا کوئی صوبائی لیڈر نہیں  ہے۔ امیت شاہ نے ماضی میں  کرکٹ اسٹار سورو گنگولی کو بی جے پی کے ممکنہ وزیر اعلیٰ کے طور پر پیش کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں  ہوسکا کیونکہ گنگولی دیدی سے بگاڑ کرنے کے لئے تیار نہیں  تھے۔بنگال میں  پچھلے چند سالوں  میں  بی جے پی کے ناقابل یقین عروج کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پارٹی ترنمول کانگریس کے حصے کے ووٹ میں  سیندھ نہیں  لگاسکی ہے۔ ۲۰۱۹ء میں  بی جے پی نے ۱۸؍لوک سبھا سیٹیں  جیتیں  اور اس کے ووٹ شیئرمیں  ۲۳؍فیصد کا اضافہ ہوا لیکن یہ بڑھے ہوئے ووٹ اسے اپوزیشن سے ملے۔ ۲۰۱۹ء میں  بایاں  محاذ کا ووٹ شیئر ٹھیک ۲۳؍ فیصد کم ہواتھا۔ دوسری جانب گرچہ ترنمول کانگریس کی سیٹیں  ۳۴؍سے گھٹ کر ۲۲؍ رہ گئیں  لیکن اس کا ووٹ شیئر کم ہونے کے بجائے ۳۹؍فیصد سے بڑھ کر ۴۳؍فیصد ہوگیا۔ اس میں  کوئی شک نہیں  کہ بنگال میں  اس بار ایک ایک لوک سبھا سیٹ پرترنمول کانگریس اور بی جے پی کے درمیان بہت زبردست محاذ آرائی ہونے والی ہے لیکن ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا بی جے پی کی سیٹوں  میں  خاطر خواہ اضافہ ہونے جارہا ہے یا ترنمول کی سیٹوں  کی تعداد کم ہوجائے گی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK