اگر ایک ساتھ ملکارجن کھرگے، راہل، پرینکا اور نتیش کماراسٹیج سے میدان میں اتر آئے تو یہ واقعی بی جے پی کوہلاکر رکھ دے گا، اتنے بڑے سیاسی لیڈران سے ایک ساتھ لڑنا اور ان کی پالیسیوں کا مقابلہ کرنا بی جے پی کیلئے آسان نہیں ہوگا۔
EPAPER
Updated: August 29, 2023, 12:42 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai
اگر ایک ساتھ ملکارجن کھرگے، راہل، پرینکا اور نتیش کماراسٹیج سے میدان میں اتر آئے تو یہ واقعی بی جے پی کوہلاکر رکھ دے گا، اتنے بڑے سیاسی لیڈران سے ایک ساتھ لڑنا اور ان کی پالیسیوں کا مقابلہ کرنا بی جے پی کیلئے آسان نہیں ہوگا۔
گزشتہ دنو ں ہم نے ایک بے لاگ قسم کے ہندی صحافی اجیت انجم کا ایک دلچسپ انٹر ویو دیکھا۔ سوشل میڈیا کا یہ پلیٹ فارم اکثر و بیشتر بہت اچھی اور ایماندارانہ خبری ں دیتا رہتاہے۔ اس انٹر ویو می ں ایک اور ہندی صحافی نیلو ریاس نے مشہور ہندو بریگیڈ کے ڈاکٹر سبرامنیم سوامی سے کچھ تازہ مسائل کے بارے می ں بہت ذہانت سے بات کی ہے۔ صحافی نیلو ریاس ،ڈاکٹر سبرامنیم سوامی سےٹھیک عدم اعتماد کے بارے میں وزیراعظم نریندرمودی کی تقریرکی بابت ان کی رائے جاننا چاہتی تھیں ۔ ڈاکٹر سوامی عام طور پر بات چیت اس چینل پر کرتے ہی ں جو ان کا جانا بوجھا چینل ہولیکن ان کوبہرحال انٹرویو دینے لگے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ نیلو اور ان کی سوچ میں بڑا فرق ہے، نیلو یہ جاننا چاہتی تھی ں کہ آخر وزیر اعظم کے جوابات میں اتنا اعتماد کیو ں تھا کہ وہ بتا رہے تھے کہ اگلا الیکشن بھی وہی جیتیں گے۔ ہمیں تھوڑی حیرت ہوئی لیکن ہمیں یہ بہر حال لگا کہ نریندر مودی پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سوامی کا لہجہ خاصا اہانت آمیزتھا۔
انہو ں نے جواب دیا کہ جب کسی اقتدار پرست کو یہ احساس ہوتا ہے کہ طاقت اس کے ہاتھو ں سے نکل رہی ہے اور اسے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس صورت کو بدل نہیں پائے گا تو اس کے لہجہ میں ایسا ہی اعتماد پیدا ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ بہت زیادہ عقل مند نہی ں ہوتا۔ انہو ں نے کہا کہ جب ہٹلر کو معلوم ہوا کہ اس کا خاتمہ ہوا چاہتا ہے تو اس کےلہجہ میں بھی ایسا ہی اعتماد پیدا ہوگیا تھا، لیکن لہجہ کی یہ گھن گرج اس کے انجام کو روک نہ سکی۔ خیال رہے کہ یہ ہمارے الفاظ نہیں ہیں ۔ یہ الفاظ ڈاکٹر سوامی ہی کے ہیں ۔انہو ں نے یہ بھی کہا کہ وہ جب ایمرجنسی کے وقت بی جے پی میں داخل ہوئے تھے تو وہ امریکہ سے تعلیم مکمل کر کےآ ئے تھے اور بی جے پی جو اس وقت جن سنگھ تھی اس می ں ان کی قابلیت کی بڑی دھوم تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت نریندر مودی کی پارٹی میں کوئی حیثیت نہی ں تھی۔ وہ محض ایک عام ورکر تھے، اس لئے کبھی کبھی وہ ڈاکٹر سوامی کا سامان لے جا کر اِدھر سے اُدھر رکھا کرتے تھے۔یہ باتی ں بتانے کا مقصد یہ تھا کہ آپ جان لیںکہ ڈاکٹر سوامی نریندر مودی سے خوش نہیں ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ اس خفگی کی وجہ کچھ اور ہولیکن ڈاکٹر سوامی در اصل یہ بتانا چاہتے تھے کہ آر ایس ایس نریندر مودی سے سخت نا خوش ہے۔ انہو ں نے بھی یہ کہا کہ آر ایس ایس کو یہ اندیشہ ہے کہ اگر اگلے چناؤ میں بھی پارٹی کی قیادت نریندر مودی کے ہاتھ میں ہی رہی تو پارٹی الیکشن ہار جائے گی۔ اس لئے وہ بھی چاہتے ہیں کہ نریندر مودی کا کوئی متبادل مل جائے۔ ڈاکٹر سوامی کوکچھ بھی کہیں لیکن ہم اپنے اسی بیان پر قائم ہی ں کہ آر ایس ایس کی یہ مجال نہیں کہ وہ متبادل کو سامنے لاسکے،اور ہم نے اس کی وجوہات بھی بتا دی تھیں ۔ لیکن ان کی باتو ں سے ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ ساری پارٹی پر ہار کا خوف سوار ہے۔
یہ باتیں تو بی جے پی کے بارے میں تھیں ۔ اب ذرا ان چیز ں کو دیکھا جائے جو اپوزیشن کا مورچہ ’انڈیا‘کے نعرے میںسچ کر رہا ہے۔ یہ وہ چیزیں اور باتیں ہیں جن کا ڈاکٹر سوامی کے انٹر ویوسے کچھ تعلق نہیں ہے، اس میں ہم جوکہیں گے وہ ہمار اپنا جائزہ ہے۔ سب سےپہلے تو یہ سمجھئے کہ ایک پرانی سیاسی کہاوت ہےکہ دہلی کا راستہ لکھنؤ سے ہو کر جاتا ہے۔ یعنی ’انڈیا‘ یو پی کے بارےمیں کوئی پلان بنا لے۔ یہ سچ بھی ہے، ہندستانی سیاست میں کانگریس کا زوال اس وقت شروع ہوا تھا جب یو پی اس کے ہاتھو ں سے نکل گیا تھا۔ ورنہ مئی ۲۰۰۴ء کے الیکشن میں یو پی میں سونیا اور راہل ما ں بیٹو ں کے علاوہ یو پی میں کانگریس کا زور ختم ہو چکا تھا۔ ۲۰۱۹ کے الیکشن می ں تو راہل بھی امیٹھی ہار گئے تھے اور صرف سونیا کی سیٹ بچی تھی۔ اس لئے عام طور پر یہ تاثر پایاجاتا ہے کہ’ انڈیا‘ کو یو پی کو میدان جنگ بنانا پڑے گا۔
یہ بات بھی درست ہے کہ اگر یوپی میں جہا ں لوک سبھا کی ۸۰؍ سیٹیں ہیں اگر مقابلہ یکطرفی نہیں رہاتو بی جے پی آرام سے جیت جائے گی۔ یعنی بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے سامنے’انڈیا‘کا ایک ہی امیدوار ہو ناچاہئے ۔ان کا خیال ہے کہ بی جے پی کو چکرا کر رکھ دینے والی پالیسی بنائی جائے۔ ان کا خیال ہے کہ بی جے پی کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک ایسی پالیسی بنائی جائے جو ان کو بھی بوکھلا دے ۔ ان کا خیال ہے کہ سیاسی بساط اس طرح بچھائی جائے کہ چونکہ سونیا گاندھی کی عمر اور بیماریو ں کی وجہ سے انہیں رائے بریلی سے انتخاب نہ لڑایا جائے۔ ان کا خیال ہے کہ رائے بریلی سے ان کے بجائے کانگریس پارٹی صدر ملکارجن کھرگے کو کھڑا کیا جائے۔ دوسری طرف امیٹھی میں راہل کو دوبارہ بھیجا جائے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امیٹھی والے پچھلے چناؤمیں راہل کو ہرا کر بہت شرمندہ ہیں اور امیٹھی میں کانگریس نے کام بھی خوب کیا ہے۔ اس کے علاوہ بنارس سے پرینکا گاندھی کو نریندر مودی کا مقابلہ کرنے کے لئے کہا جائے۔ لیکن ان سب سے زیادہ اہم بات یہ سوچی گئی ہے کہ بہار کے نتیش کمار کو الہ آباد کے قریب پھول پور سےکھڑا کیا جائے۔ پھول پور ہی بہت پرانی سوشلسٹ سیٹ سمجھی جاتی ہے۔ اگر یہ پالیسی کامیاب ہو گئی تو یوپی کا میدان صحیح معنو ں میں ایک نیا سیاسی اکھاڑہ بن سکتا ہے۔ لیکن یہ سب وہ اطلاعات ہی ں جو ہمیں ملی ہیں ۔ باقی یہ لگتا ہے کہ اگر ایک ساتھ ملکا رجن کھرگے، راہل پرینکا اور نتیش کماراسٹیج سے میدان میں اتر آئے تو یہ واقعی بی جے پی کوہلاکر رکھ دے گا، اتنے بڑے سیاسی لیڈران سے ایک ساتھ لڑنا اور ان کی پالیسیو ں کا مقابلہ کرنا بی جے پی کیلئے آسان نہیں ہوگا۔ لیکن یہ پالیسی اگر بنا بھی لی گئی تو اس کا راز ۳۱؍ اگست اور یکم ستمبر کو ممبئی میں ہونے والی’انڈیا‘ مورچہ کی میٹنگ میں ہی فاش ہونے والا ہے۔
اسمیں شبہ نہیں کہ اگر یہ سارے میدان انتخاب میں اتر آئے تو صورت حال بہت دلچسپ دکھائی دینے لگے گی۔ بی جے پی کو ان پالیسیوں کی خبر ہو چکی ہے اور وہ اپنی طرف سے اس کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے،ہمی ں یہ بھی خبر ملی ہے کہ امیت شاہ اس کیلئےپورا زور ڈال رہے ہیں کہ مایا وتی کو ’انڈیا‘ میں جانے سے روکا جائے۔
میںنے یو پی کی سیاست سے پوری طرح آشنائی رکھنے والو ں سے ، جن کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے نہیں ہے، یہ اطلاعات حاصل کی ہیں ۔مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ ا’نڈیا‘ کے کئی سوچ وچار کرنے والو ں نے ایک انتخابی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔