اسرائیل کی مثال اس نوعمر لڑکے کی ہے جو اپنے کسی ساتھی کو بے تحاشا پیٹتا ہے اور بار بار پیٹتا ہے مگر پٹنے والا لڑکا اگر اپنے دفاع میں ایک آدھ مکا مار دے تو چیخ چیخ کر بھیڑ اکٹھی کرلیتا ہے تاکہ بھیڑ کا ہر شخص اسے مظلوم سمجھے اور اس کی حمایت میں آواز اٹھانے لگے۔
غزہ پر شدید بمباری ۔تصویر:آئی این این
اسرائیل کی مثال اس نوعمر لڑکے کی ہے جو اپنے کسی ساتھی کو بے تحاشا پیٹتا ہے اور بار بار پیٹتا ہے مگر پٹنے والا لڑکا اگر اپنے دفاع میں ایک آدھ مکا مار دے تو چیخ چیخ کر بھیڑ اکٹھی کرلیتا ہے تاکہ بھیڑ کا ہر شخص اسے مظلوم سمجھے اور اس کی حمایت میں آواز اٹھانے لگے۔ فلسطین اسرائیل تنازع میں آپسی جھڑپوں کی حقیقت کچھ ایسی ہی ہے جو سال دو سال میں ایک بار نہایت پابندی سے باقاعدہ جنگ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ گزشتہ چند روز سے اس خطہ میں کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔ اسرائیل جنگ پر آمادہ نہیں بلکہ باقاعدہ جنگ کا اعلان کرچکا ہے۔ جب بھی ایسا ہوتا ہے، بیشتر ممالک بالخصوص امریکہ اس کی بھرپور حمایت شروع کردیتا ہے۔ فلسطین کیلئے تھوڑی بہت ہمدردی کا آغاز تب ہوتا ہے جب فلسطینی علاقوں میں تباہی حد سے سوا ہوجاتی ہے اور ہلاکتوں کا ریکارڈ بننے لگتا ہے۔ اس سے پہلے اسرائیل کو کھل کھیلنے کی مکمل اجازت دی جاتی ہے اور انسانی حقوق کا خیال تک نہیں آتا۔ یہ ایک مخصوص طریقہ (پیٹرن) ہے اور جب بھی تنازع، کشیدگی یا فلسطینیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگتا ہے اسرائیل اسی پیٹرن کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اقوام متحدہ عالمی ادارہ ہے جسے مکمل طور پر غیر جانبدار ہونا چاہئے تھا، مذمتی قرارداد جاری کرنے بھر کی غیرجانبداری نبھا کر خاموش جانبداری اور حمایت کا سلسلہ دراز رکھتا ہے۔ اس منظرنامے کو سامنے رکھ کر سوچئے تو سوائے منافقت کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ منافقت بھی معمولی درجے کی نہیں، یہ اس قابل ہے کہ اسے عالمی منافقت قرار دیا جائے اور اس کی علامتی تصویر یا مجسمہ اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں نصب کیا جائے تاکہ دنیا میں غیرت و حمیت باقی رہی تو نئی نسل کو یہ سمجھاتے وقت کہ منافقت کیا ہوتی ہے، یہ مجسمہ بھی دکھایا جائے۔
مشہور دانشور نوام چامسکی کا ایک قول گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملا۔ لکھا تھا: ’’تم میرے آبی وسائل پر قبضہ کرلو، میرے زیتون کے درختوں کو تلف کردو، میری زمینات ہتھیالو، میری ملازمتیں چھین لو، میرے باپ کو جیل میں ڈال دو، میری ماں کو گولی مار دو، میرے ملک پر بمباری کرو، ہم سب کو بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دو، ہمیں ذلیل کرو، پھر الزام بھی ہمیں کو دو کیونکہ ہم نے جوابی راکٹ داغ دیا تھا۔‘‘
یہ قول فلسطینیوں کی بے بسی کی بآسانی سمجھ میں آنے والی تصویر پیش کرتا ہے۔ سب کہتے ہیں کہ فلسطینی عوام راکٹ داغنا بند کردیں مگر کسی کو یہ جاننے سے دلچسپی نہیں کہ فلسطینی عوام راکٹ کیوں داغتے ہیں۔ جس کے پاس صرف راکٹ ہوں وہ راکٹ ہی استعمال کرسکتا ہے، دور مار کرنے والی میزائل تو داغ نہیں سکتا، وہ یوکرین تو ہے نہیں جس کی اتنی مدد کی گئی کہ ڈیڑھ سال سے روس جیسی بڑی طاقت کے سامنے ڈٹا ہوا ہے۔ ویسے اس بار فلسطینیوں نے راکٹ پر اکتفا نہیں کیا ہے۔
دیکھنا ہے کہ چین کی مشرق وسطیٰ میں دلچسپی فلسطین کے خلاف اسرائیل کی جنگ پر کیا رخ اختیار کرتی ہے اور سعودی اور ایران کی نئی نئی دوستی اس آزمائش سے کیسے گزرتی ہے، امریکہ، یورپی یونین اپنی منافقانہ روش پر قائم رہیں گے اس میں کوئی تبدیلی اب تک نہیں آئی ہے تو اب کس بنیاد پر امید کی جائے۔ دیگر ملکوں کا اپنا اپنا طریقہ عمل ہے۔ ہندوستان ہمیشہ سے فلسطین نواز رہا ہے مگر اس بار اس پرانے اور تاریخی موقف میں افسوسناک تبدیلی آئی ہے ۔