Inquilab Logo

خاتون پہلوانوں کو انصاف ملے گا؟

Updated: June 07, 2023, 10:23 AM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

خاتون پہلوانوں کوامید تھی کہ مودی جی جنہوں نے قوم کو’’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘جیسا دلنشیں نعرہ دیا تھا، وہ امرت کال میں بیٹیوں کے پاک دامن کو چھونے والے ہاتھوں میں فوراً ہتھکڑی لگوا دیں گے لیکن یہ ان پہلوانوں کی خام خیالی ثابت ہوئی۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

 جب جب یہ لگتا ہے کہ جبر کے اس موسم میں مظلوم کی فریاد سننے والا اس ملک میں اب کوئی نہیں بچا ہے اورظالم اس کی بے بسی پر قہقے لگارہا ہے تب تب قدرت اپنا جلوہ دکھاتی ہے اور ان تمام ستم زدہ لوگوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کردیتی ہے جو حالات سے مایوس ہوچلے تھے۔
 جنسی ہراسانی کا شکار پہلوان لڑکیوں کی انصاف کے حصول کی جدوجہد میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ایک نیا موڑ آیا جب وزیر داخلہ امیت شاہ کے ساتھ ان کی دو گھنٹوں تک بات چیت ہوئی۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ خاتون پہلوان جنوری کے وسط سے ریسلر فیڈریشن آف انڈیا کے سربراہ اور بی جے پی ایم پی برج بھوشن شرن سنگھ کی عہدے سے برطرفی اور گرفتاری کے لئے احتجاج کررہی تھیں۔ لیکن ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہورہی تھی۔ جس دن وزیر اعظم نئے پارلیمنٹ کے رنگا رنگ افتتاح میں مصروف تھے اس دن دہلی پولیس احتجاجی لڑکیوں کو جنتر منتر سے جبراً ہٹانے اورحراست میں لینے میں مصروف تھی۔ اس دن ایسا لگاتھا گویا ان کے احتجاج نے دم توڑ دیا ہے لیکن ہفتے بھر کے اندر جب مودی کابینہ میں دوسرے سب سے اہم وزیر نے انہیں اپنے گھر میں بٹھاکر ان کی شکایت سنی تو لگا کہ پکچر ابھی باقی ہے۔چھ ماہ قبل نصف درجن پہلوان لڑکیوں نے جن میں اولمپک میڈل ونر ساکشی ملک اورکامن ویلتھ اور ایشین گیمز گولڈ میڈلسٹ ونیش پھوگٹ بھی شامل ہیں جب برج بھوشن کے خلاف کارروائی کی مانگ کی تو مودی سرکار جو کل تک انہیں دیش کی شان قرار دے رہی تھی، ان سے بد گمان ہوگئی۔جب وہ دھرنے پر بیٹھ گئیں تو کھیل منتری انوراگ ٹھاکر نے ایک جانچ کمیٹی بناکر خانہ پوری کردی لیکن برج بھوشن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پولیس نے اس کے خلاف ایف آئی آر تک اس وقت تک درج نہیں کی جب تک سپریم کورٹ نے انہیں اس کا آرڈر نہیں دیا۔جب ۲۸؍مئی کے بعد دل برداشتہ لڑکیوں نے اپنے تمغے گنگا میں بہادینے کا اعلان کردیا تو ہلچل مچ گئی اور عام لوگوں کے خوابیدہ ضمیر جاگنے لگے۔ انہیں یہ ادراک ہونے لگا یہ بدنصیب لڑکیاں ریاستی جبر کا شکار ہیں۔کسانوں کے ایک بڑے طبقے نے بھی ان کی حمایت کا اعلان کردیا۔ کروکشیترمیں مہاپنچایت میں بھارتیہ کسان یونین کے سربراہ راکیش ٹکیت نے یہ وارننگ دے دی کہ اگر سرکار نے ۹؍ جون تک احتجاجی لڑکیوں سے بات نہیں کی اور ان کے مسئلے کا حل نہیں نکالا تو کسان بھی خاتون پہلوانوں کے ساتھ مل کر جنتر منتر پر دھرنے پر بیٹھ جائیں گے۔شاید اس وارننگ کا اثر ہوا ورنہ امیت شاہ احتجاجی لڑکیوں سے مذاکرات پر آمادہ نہ ہوتے کیونکہ مودی سرکار کسی ’’اندولن جیوی‘‘ سے بات کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتی ہے۔ 
  پچھلے نو سال میں جمہوری اقداراور جمہوری ادارے کمزور اور جمہوری حقوق پامال کئے گئے ہیں۔جس جمہوری حق پر حکومت قدغن لگانے کی جی توڑ کوشش کررہی وہ ہے شہریوں اور تنظیموں کا پرامن احتجاج کا حق۔ سماج کا کوئی طبقہ مثلاًکوئی مذہبی یا نسلی گروہ،کسانوں کی کوئی تنظیم یاپرائمری اسکول ٹیچروں کی اسوسی ایشن اگر اپنے جائز مطالبات کیلئے احتجاج کرتی ہے تو سرکار اسے اپنا حریف بلکہ دشمن تصور کربیٹھتی ہے۔ ایسے احتجاج سے نپٹنےکیلئے مودی سرکار نے ایک چار درجاتی حکمت عملی وضع کررکھی ہے۔ اول، حکومت احتجاج سے مکمل طور پر بے اعتنائی برتتی ہے۔ دوئم، گودی میڈیا کی مدد سے اس تحریک کو بدنام کرنے کی مہم چلاتی ہے۔ سوئم، طاقت کا استعمال کرکے تحریک کو کچلنے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر درج بالا تینوں کوششوں کے باوجو د تحریک دم نہیں توڑتی ہے تو حکومت قہراً و جبراً چوتھا قدم اٹھاتی ہے یعنی احتجاجی گروہ کے مطالبات تسلیم کرلیتی ہے۔ 
 خاتون پہلوانوں کی تحریک کو پہلے حکومت نے مکمل طور پر نظر انداز کیا، پھر گودی میڈیا کے ذریعہ ا س کو بدنام کروانے کی کو شش کی لیکن چونکہ پہلوان’’سنسکاری ہندو لڑکیاں‘‘ ہیں اس لئے ان پر نہ پاکستانی ایجنٹ اور نہ ہی خالصتانی دہشت گرد ہونے کا لیبل چپکایا جاسکا۔پولیس کے ذریعہ اسے ختم کرانے کی کوشش بھی ناکام رہی۔ الٹا سول سوسائٹی خصوصاً کسانوں کی حمایت بھی جب پہلوانوں کو ملنے لگی تو امیت شاہ کو ان سے بات کرنی پڑی۔ 
 خاتون پہلوانوں کوامید تھی کہ مودی جی جنہوں نے قوم کو’’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘جیسا دلنشیں نعرہ دیا تھا کہ امرت کال میں بیٹیوں کے پاک دامن کو چھونے والے ہاتھوں میں فوراً ہتھکڑی لگا دی جائے گی لیکن یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوئی۔دراصل مودی جی کو لگتا ہے کہ کسی طبقے کے مطالبے یا اپوزیشن کے دباؤ میں کسی منتری، ایم پی یا ایم ایل اے کو ہٹادینے سے ملک میں یہ پیغام جائے گا کہ حکومت کمزور ہے اور یہ بات ان کے مضبوط وزیر اعظم کے امیج کے لئے نقصان دہ ہوگی۔ 
  برج بھوشن کی حمایت کی ایک دوسری اہم وجہ بھی ہے۔ وہ مشرقی اتر پردیش کا ایک طاقتور ٹھاکر لیڈر ہے جو لگاتار پانچ بار لوک سبھا الیکشن جیتا ہے۔ علاقے میں اس کا اتنا دبدبہ اور راجپوتوں میں اتنا رسوخ ہے کہ وہ اپنی قیصر گنج سیٹ کے علاوہ پانچ چھ اور لوک سبھا سیٹوں پر بی جے پی کی کامیابی کو یقینی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
لیکن پچھلے ہفتے ہونے والے واقعات سے سچویشن بدل گئی ہے۔ کسانوں کا ایک بڑا طبقہ جو مودی سرکار سے پہلے سے ہی ناراض تھا اب برج بھوشن کے ایشو پر لڑکیوں کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے۔ برج بھوشن مسلسل یہ دعویٰ کررہا تھا کہ اگر اس کے خلاف ثبوت اور گواہ ہوں تو انہیں پیش کیا جائے۔اب پولیس کو ثبوت بھی مل گئے ہیں اور چار گواہ بھی جو لڑکیوں کے الزامات کی تصدیق کے لئے تیار ہیں۔ مودی جی نے ۲۰۲۴ء میں عام انتخابات جیت کر ہیٹ ٹرک بنانے کا مصمم ارادہ کررکھا ہے۔اسی لئے امیت شاہ کو ڈیمیج کنٹرول کے لئے احتجاجی لڑکیوں سے بات چیت کرنی پڑی۔ شاہ سے مل کر بھی مظلوموں کو انصاف نہیں ملا اس لئے ان کی لڑائی جاری رہے گی۔وزیر داخلہ کا یہ دعویٰ کہ قانون اپنا کام کررہا ہے ایک رسمی بیان کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ قانون اگر اپنا کام کرتا تو برج بھوشن سلاخوں کے پیچھے ہوتا کیونکہ اس پر ایک ایف آئی آر’ پاسکو‘کے تحت بھی درج ہے جو ملزم کی فوری گرفتاری کا متقاضی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا امیت شاہ کی کھلاڑیوں کے ساتھ ملاقات محض ایک سرکاری شعبدہ بازی تھی یاحکومت واقعی ان کا مطالبہ مان کر برج بھوشن کی گرفتار ی پر غور کررہی ہے۔ مودی جی اور امیت شاہ یہ بات بخوبی جانتے ہوں گے کہ اقتدار کی بساط پر شہ مات سے بچنے کے لئے اگر پیادہ قربان کرناپڑے تو بھی سودا مہنگا نہیں ہے۔

Wrestlers Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK