حسرتوں کا طوفان دل میں چھپائے جب کوئی آخری سانس لیتا ہے تو اس کا جی چاہتا ہوگا کہ کاش! عمر کچھ اور دراز ہوجاتی اور وہ اپنی خواہشات پوری کرلیتالیکن ایسا ہوتا نہیں۔ چاہے امیر ہویا غریب، دیہاتی ہویا شہری، مشرق کا باسی ہویا مغرب کا، موت کا مزہ ایک دن سب کو چکھنا ہے۔ جاتے جاتے بہتوں کو اس کا افسوس ہوتا ہو گا کہ کاش! میں نے پڑھائی کی ہوتی، کاش! دل لگاکر کام کیا ہوتا، کاش! پیسے نہ اڑائے ہوتے، کاش!
علامتی تصویر۔ تصویر :آئی این این
مرزا غالبؔ نے بڑی دل لگتی بات کہی تھی جب یہ مصرع لکھا تھا کہ’’ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پردم نکلے۔‘‘واقعی دم نکل جاتا ہے اور خواہش ادھوری رہ جاتی ہیں۔ آدمی صرف کھلی آنکھوں سے وقت کے بہتے دریا کو دیکھتا رہتا ہے۔ اس کی مجبوریاں اور معذوریاں روکے رکھتی ہیں اور وہ حسرتوں کا طوفان دل میں چھپائے آخری سانس لے لیتا ہے۔ اس لمحے میں یقیناً اس کا جی چاہتا ہوگا کہ کاش! عمر کچھ اور دراز ہوجاتی اور وہ اپنی خواہشات پوری کرلیتا لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ چاہے امیر ہویا غریب، دیہاتی ہویا شہری، مشرق کا باسی ہویا مغرب کا، موت کا مزہ ایک دن سب کو چکھنا ہے اوراپنے ساتھ ۷۰۔۶۰؍ سال کی عمر کا حساب اٹھاکر دنیا سے چلے جانا ہے۔ ہوسکتا ہے جاتے جاتے ڈھیر ساری باتوں کا افسوس بھی ہوتا ہو کہ کاش! میں نے پڑھائی کی ہوتی، کاش! دل لگاکر کام کیا ہوتا، کاش! پیسے نہ اڑائے ہوتے، کاش! میری شادی فلاں خاتون سے ہوگئی ہوتی، کاش! میں نے اپنے بچوں پر توجہ دی ہوتی، کاش! اپنی ماں کی خدمت کی ہوتی، کاش! اپنے والد کے ساتھ کچھ وقت بتایا ہوتا، کاش! فلاں دوست سے جھگڑا نہ کیا ہوتا، کاش! اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھا ہوتا وغیرہ وغیرہ..... لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی ہوتی ہے کیونکہ دروازے پر موت کے فرشتے کی دستک سنائی دینے لگتی ہے اوراسے یقین ہوجاتا ہے کہ چندلمحوں میں وہ ایک جسد خاکی میں تبدیل ہوجائے گا۔ پھر رشتہ دار اور احباب اسے منوں مٹی کے نیچے دبادیں گے اوراس کی ساری خواہشات اس کے ساتھ دفن ہوجائیں گی۔
ایسا شاذ ہی ہوتا ہے جب کوئی صاحب جاتے جاتے بات کسی پرانے رفیق یا ہمدم دیرینہ سے کہہ دیں ہم نے اپنے ایک عزیز کو ان کے آخری لمحوں میں افسوس کرتے دیکھا ہے کہ کاش! انہوںنے حج کی سعادت حاصل کرلی ہوتی۔ ایک عزیز دوست نہایت غم زدہ تھے کہ کاش انہوں نے اپنی محنت سے کمائی دولت نیک کاموں میں خرچ کی ہوتی کیوں کہ انہیں خدشہ تھا ان کے وارثین اسے عیش و عشرت میں اُڑادیں گے۔ لیکن آسٹریلیا کے کچھ مریضوں نے ایک نرس سے اپنی دل کی بات کہی اوراپنا دل ہلکا کرلیا۔ اتفاق سے وہ نرس ایک ایسے وارڈ میں تعینات تھیں جہاں عمر رسیدہ مریض اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے۔ ادھیڑ عمر کی اس نرس Bronnie Ware نے جب ان مریضوں کی مایوس کن باتیں سنیں اوران کے درد کو محسوس کیا تو ان کا نام لئے بغیر ان کی داستان الم کو بلاگ کی صورت میں انٹرنیٹ پر ڈال دیا۔ یہ بلاگ اتنے مقبول ہوئے کہ۸۰؍ لاکھ لوگوںنے انہیں پڑھا اور نرس کے اس جذبے کو خوب خوب سراہا۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوںنے تجویز پیش کی ہو کہ ان واقعات کو کتابی صورت میں شائع کریں تاکہ یہ آسٹریلیا سے باہر کی دنیا میں بھی پہنچ سکے لہٰذا ۲۰۱۲ء میں Top Five Regrets of the Dyeing نامی کتاب بازار میں آئی اور اتنی مقبول ہوئی کہ آج اس کا ۲۷؍ زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ ویسے کچھ لوگوں نے ان۵؍ ایسے’افسوس‘کو وہاٹس ایپ پر بھی ڈال دیا ہے تاکہ جو صاحبان کتاب نہ پڑھ سکیں، کم از کم اپنے موبائل میں ا ن مریضوں کے مشترکہ افسوس سے واقف ہو جائیں۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ بات یہ بھی پڑھ لیں کہ ۲۰۱۸ء میں موت کے کنارے کھڑے کچھ مریضوں سے جب ان کی نامکمل خواہشات کے بارے میں پوچھا گیا تھا تب ان بدنصیبوں نے انہی دوباتوں کا تذکرہ کیا تھا کہ کاش! ہم نے اپنے خوابوں کو اہمیت دی ہوتی اور وہی کیا ہوتا جو دل کی پکارتھی..... اور دوسرے یہ کہ انہیں اس بات کا بھی شدید افسوس تھا کہ کاش! ہم نے اپنی صلاحیتوں کا ادراک کیا ہوتا اور انہیں پورے طورپر بروئے کار لایا ہوتا، مگر ’برونی ویر‘ نے جس دل سوزی سے ان مریضوں کی خواہشات کا ذکر کیا ہے، اس سے ایک دنیا متاثر ہوئی ہے۔ ذیل میں راقم نے بھی ان پانچ افسوس کو مختصر طور پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ہم بھی جان لیں کہ خدانخواستہ ایسے ہی افسوسناک لمحات ہماری زندگی کا حصہ تو نہیں بن گئے۔ (۱)بیشتر مریضوں کو افسوس تھا کہ انہوںنے اپنی ساری زندگی دوسروں کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق گزار دی کیونکہ ہمارے ارد گرد جو لوگ موجود رہتے ہیں، ان کا لازمی اثر ہماری شخصیت پر پڑتا ہے.... اورہم نہ چاہتے ہوئے بھی وہی کرنے لگتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ دراصل ہمیں ’رائے عامہ‘ کا اتنا خوف ہوتا ہے کہ ہم اس سے روگردانی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہی کپڑے پہنتے ہیں، وہی کھانے کھاتے ہیں، وہی فلمیں پسند کرتے ہیں اور اسی انداز میں گفتگو کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس انداز میں جیتے ہیں جو دوسروں نے ہمارے لئے طے کردیا ہے۔کیا یہ ہماری انفرادی شخصیت کی نفی نہیں؟ جب زندگی بھر ان کی آوازمیں آواز ملا کر ہم آخری سفر پر روانہ ہوتے ہیں تو آس پاس کوئی نہیں ہوتا۔ کیا یہ الم ناک بات نہیں کہ ہم اپنی زندگی دوسروں کے کہنے پر جئیں اور دوسروں کے معیار ہی کو سب کچھ سمجھ لیں؟ افسوس تو اس بات پر ہے کہ ہم یہ بھی نہیں جان سکتے کہ لوگوں نے ہماری زندگی کو کس طرح کنٹرول میں کر رکھا تھا۔ جب تک اس بات کا پتہ چلتا، اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ (۲)ہم میں سے کتنے ہی افراد ہیں جو اپنے دل کی بات دوسروں سے نہیں کہتے۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے؟ کیااپنے محبوب سے محبت کے اظہار میں بھی آپ نے تاخیر کی تھی؟کبھی آپ نےاپنی والدہ سے کہا کہ آپ کے دل میں ان کیلئے کتنی محبت ہے؟ کیا کبھی اپنے والد سے ان کے لئے محبت کا اظہارکیا؟ ہم تو اپنے دوستوں کو بھی نہیں بتاتے کہ وہ ہمیں کتنے عزیز ہیں؟ نہ اپنی شریک سفر کو بتاتے ہیں کہ فلاں موقع پر ان کی کتنی یاد آئی تھی یا ان کے وجود سے زندگی کتنی سہل ہوگئی ہے۔ ہماری بے حسی دیکھئے کہ اپنے عزیزوں سے ان کے احساسات کا تذکرہ تک نہیں کرتے نہ اپنے پڑوسیوں سے ان کے حسن سلوک کا ذکر کرتے ہیں۔ اس لئے جب چاہتوں اور قربتوں کے رشتوں کا احساس ہوجائے تو خدارا، ان کا برملا اظہار بھی کردیا کیجئے ورنہ زندگی بھر افسوس ہوگا کہ اے کاش! ہم نے اخلاقی دباؤ میں اپنی زبان بند نہ رکھی ہوتی اور وقت رہتے کہہ دیا ہوتا جو برسوں سے کہنا چاہتے تھے۔ (۳) ہم میں سے بیشتر لوگ اپنے کام سے متعلق بے حد سنجیدہ ہوتے ہیں۔ انہیں یادہی نہیں رہا کہ ان کے اوقات پر کچھ اور لوگوں کا بھی حق ہے۔ انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ کون گھر میں ان کا انتظار کررہا ہے؟ بچے اپنے باپ سے باتیں کرنا چاہتے ہیں، بوڑھے والدین اپنے بیٹے کو آس پاس دیکھنا چاہتے ہیں، نتیجتاً ریٹائر ہونے کے بعد خیال آتا ہے کہ ہائے! وہ وقت تو ضائع ہوگیا جو ہم اپنوں کے ساتھ گزار سکتے تھے۔ نہ بچوں کو بڑا ہوتے دیکھا ، نہ گھر والوں کے ساتھ تفریح پر کہیں گئے ۔ اب بقیہ زندگی اسی افسوس کے ساتھ گزارنی ہے کہ کاش!کچھ وقت اپنوں کو دے سکتے اور زندگی کے چندلمحے ، چند گھنٹے اور چند دن سنہری بناسکتے۔ (۴) یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی کبھار کچھ لوگوں کو دوستوں کی قدر نہیں ہوتی۔ مخلص اور جاںنثار دوست ہوں تب بھی وہ اپنی ترنگ میں ان سے دور دور ہی رہتے ہیں۔ پھر ایک دن آپ کا سلوک دیکھ کر یہ دوست بھی دور ہوجاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ اپنی مصروفیت میں گرفتار ہوں، ملک سے باہر چلے گئے یا بیزار ہوکر آپ سے تعلقات منقطع کر چکے ہوں۔ آخر کار زندگی میں وہ لمحہ بھی آ ہی جاتا ہے جب آپ کو اپنے دوستوںکی کمی محسوس ہونے لگتی ہے ۔ اس وقت بجائے افسوس کرنے کے اگر ہم انہیں ڈھونڈ نکالیں اور ایک بار پھر انہیں پہلے کی طرح اپنا لیں تو شاید زندگی میں افسوس کرنے کی گنجائش نہ رہے۔ (۵) ہم میں سے بیشتر افراد اتنے نیک اور شریف ہوتے ہیں کہ اپنی خوشیاں قصداً بھلا کر دوسروں کو خوشیاں فراہم کرنے میں لگ جاتے ہیں.... اور یہ رجحان وقت کے ساتھ ذہن پر اتنا غالب آجاتا ہے کہ ہم مکمل طورپر بے نفس ہوچکے ہوتے ہیں۔ سارا وقت اپنی خوشیاں قربان کرنے کو تیار ، اپنا سارا وقت دوسروں کو دینے کیلئے تیار بلکہ اپنی ہر چیز دوسروں کو دینے کیلئے راضی ، نتیجتاً اس سارے بکھیڑے میں تہی دست رہ جاتے ہیں۔ ہمیں یاد ہی نہیں رہتا کہ ہمیں بھی خوش رہنے کا حق ہے، ہماری بھی کوئی پسند ہے ، کچھ دلچسپیاں ہیں اور کچھ ساعتیں صرف ہماری اپنی ہونی چاہئیں... لیکن زندگی اتنی تیز رفتار ہوتی ہے کہ پبلک جھپکتے ہی منزل آجاتی ہے.... اوراس وقت احساس ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے لئے توکچھ رکھا ہی نہیں ، یہاں تک کہ ہمارے پاس اپنا وقت بھی نہیں ہے کیونکہ ہم تو سارا وقت دوسروں کیلئے جیتے رہے، ساری خوشیاں دوسروں میں بانٹ دیں۔ اے کاش! ہم نے کچھ لمحے اپنے ساتھ بتائے ہوتے..