Inquilab Logo

دُنیا کی سب سے بڑی آبادی کا تمغہ اورہمارے طور طریقے

Updated: April 24, 2023, 12:46 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

دُنیا کی سب سے بڑی آبادی ہونا اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم اس آبادی میں محنت کرنے والوں کی شرح ہے جو کہ بڑے آبادیاتی فائدہ کا سبب بن سکتا ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

نیا ہندوستان ایک بار پھر دُنیا کا سب سے آبادی والا ملک ہے۔ پرانا ہندوستان بھی ۱۹۴۷ء تک دُنیا کا سب سے آبادی والا ملک تھا چنانچہ اس خصوصیت کے دوبارہ حاصل ہونے میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اگرقدیم ملکوں کی سیاسی حدبندیوں سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان ہمیشہ سے سب سے بڑی آبادی والا ملک رہا ہے۔ لیکن، سیاسی حدبندیوں ہی سے سرحدیں تشکیل پاتی ہیں اور انہی کو بین الاقوامی قانون کے تناظر میں تسلیم کیا جاتا ہے، باقی سب تصوراتی ہے، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ ہم پہلی مرتبہ سب سے بڑی آبادی کا ملک ہوئے ہیں۔ دو دہائی پہلے، ہم نے اعلان کیا تھا کہ ہماری آبادی ۱۰۰؍ کروڑ سے زیادہ ہوچکی ہے۔ تب اٹل بہاری واجپئی وزیر اعظم تھے۔ اُس وقت ایک بچے کو ایک اربواں بچہ کے طور پر ظاہر کیا گیا تھا۔ اس پر بہت شور شرابا نہیں تھا پھر بھی کسی نہ کسی سطح پر جشن جیسی کیفیت تھی۔ اُس زمانے میں مردم شماری باقاعدہ ہوتی تھی اس لئے کسی بیرونی ملک کو یہ بتانا نہیں پڑتا تھا کہ ہماری آبادی کتنی ہوگئی ہے۔ یہ وہی دور ہے جب سابق صدر جمہوریہ اور میزائل مین کہلانے والے سیاستداں ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے ’’انڈیا ۲۰۲۰ء‘‘ لکھی تھی۔ اس کتاب میں ڈاکٹر کلام کا ویژن تھا کہ کس طرح ہم ۲۰۲۰ء تک ایک ترقی یافتہ ملک میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ کتاب کے متعدد ابواب میں یہ بتایا گیا تھا کہ ترقی یافتہ ملک ہونے کا اعزاز حاصل کرنے کے کیا طریقے ہیں۔ مَیں نے حال ہی میں اس کتاب کا ازسرنو مطالعہ کیا اور یہ محسوس کیا کہ ڈاکٹر کلام نے کتنی معصومیت کے ساتھ بتایا تھا کہ ہمیں کیا کیا کرنا چاہئے۔ ہم اُنب کی پیش بینی اور اُمیدوں پر پورا نہیں اُترے۔ تب سے لے کر اب تک بہت کچھ بدلا، نعرے بھی تبدیل ہوئے اوراب ہم امرت کال میں ہیں۔ ایسے میں یہ دیکھنا جاننا لازم ہے کہ ہم کہاں ہیں۔
 سب سے پہلی بات ہے آبادی کا سودمند ہونا جسے ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کہا جاتا ہے۔ اس کیلئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس آبادی میں کام کرنے کی عمر والے لوگ کتنے ہیں۔ ہمارا ملک، کام کرنے کی عمر کے سب سے زیادہ لوگوں کا ملک چند سال پہلے بنا۔ اس کے باوجود ہم اس کا فائدہ نہیں اُٹھاسکے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جتنے لوگ کام کرسکتے ہیں اُتنے لوگوں کو کا م میسر نہیں ہے۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ کام کرنے کی عمر میں ہونے کے باوجود بہت سے لوگ کام کیلئے دستیاب نہیں ہیں۔ صرف ۴۰؍ فیصد دستیاب ہیں کیونکہ کام نہ ملنے کے سبب اُنہوں نے کام کی تلاش ہی ترک کردی۔ خواتین کی بڑی تعداد کام کی متلاشی نہیں کیونکہ اُنہیں کام نہیں ملتا۔
 چند روز پہلے امریکہ کے مشہور اخبار ’’دی وال اسٹریٹ جرنل‘‘ نے ایک مضمون بعنوان ’’ہندوستان کی آبادی چین سے زیادہ، دُنیا کا مرکز ثقل بدل گیا‘‘ شائع کیا مگر اسی مضمون میں درج ہے کہ پچھلی ایک دہائی میں ہندوستان میں روزگار کے نئے مواقع میں صفر فیصد اضافہ ہوا حالانکہ اس دوران ۱۰؍ کروڑ نوجوان کام کی تلاش میں تھے۔ ۲۰۲۲ ء میں ۴۰ء۲؍ کروڑ لوگ برسرکار تھے جبکہ اس سے زیادہ لوگوں (۴۱ء۳؍ کروڑ)  کے پاس ۲۰۱۷ء میں کام تھا۔ 
 مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے نیا روزگار تو پیدا نہیں کیا، جو پہلے سے موجود تھا اس کا بھی کچھ حصہ گنوا دیا۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستانیوں نے مستقبل میں سرمایہ کاری کا اپنا پرانا طریقہ فراموش کردیا۔ ستمبر ۲۰۲۲ء میں اکنامک ٹائمس نے ایک خبر شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کی سرمایہ کاری کی شرح جی ڈی پی کا ۳۱؍ فیصد ہوگئی ہے جبکہ ۳۹؍ فیصد پر پہنچ چکی تھی۔ 
 ایسا کیوں ہوا؟ اس کا سبب ہے مستقبل کے تعلق سے خوش اُمیدی اور اعتماد میں کمی۔ یہاں بھی ہم سوال کرسکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟ تو اس کے جوابات ہمیں آئینہ دکھانے والے ہوں گے اور ہم یہ جوابات سننے پسند نہیں کریں گے۔ اختصار کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل کے تئیں خوش اُمیدی کم ہونے کا سبب سماجی کشیدگی کا پیدا ہونا اور حکومت کے اہداف کا بدلنا ہے۔ اگر ہم میں سے بہت سے لوگ ایک دوسرے کو دھمکاتے ہوں، پریشان کرتے ہوں اور ایک دوسرے کیلئے مسئلہ بنے ہوئے ہوں تو مستقبل میں سرمایہ کاری پر ہماری توجہ مرکوز نہیں ہوگی اور ہم سرمایہ کاری کرنا بھی نہیں چاہیں گے کیونکہ ہمیں مستقبل تابناک نہیں دکھائی دے گا۔ ارب پتیوں کے وطن چھوڑ کر دیگر ملکوں کی شہریت اختیار کرنے کے پس پشت بھی یہی سبب ہے۔۲۰؍ اپریل ۲۰۲۳ء کو فنانشیل ٹائمس نے اپنے اداریہ میں لکھا کہ ہندوستان جمہوری تب و تاب کھو رہا ہے۔ اس اداریہ میں سب سے زیادہ آبادی کے معاملے سے بھی بحث کی گئی مگر اخبار نے کچھ اور بھی سمجھانا چاہا جس سے ہمارے ذرائع ابلاغ بحث کرنا پسند نہیں کرتے۔ ایسا کرتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر ہم نے خود کو سنبھالا اور درست طریقوں پر اپنی سماجی و اقتصادی پیش رفت کو جاری رکھا تو عالمی نقشے میں ہمارے لئے بے شمار مواقع ہیں اور ہم بدلتی ہوئی مساوات میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یورپ میں جنگ جاری ہے اور چین کے عزائم کو عالمی خطرہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر ہندوستان تکثیریت کے اپنے مزاج اور خمیر پر قائم رہے اور گنگا جمنی تہذیب کی اپنی روایت کو مستحکم کیا تو اس کے نہایت خوشگوار نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ تب دُنیا ہمیں آئینہ دکھانے کی کوشش نہیں کرے گی۔ ہم اپنا آئینہ خود بنیں، خود کو دیکھیں اور اپنی خامیوں کو دیانتداری کے ساتھ سمجھیں اور پھر اُنہیں دور کریں تو یہ امرت کال حقیقتاً امرت کال میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ 
 ہمارے آئین کو ہماری سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی کے قلب کی حیثیت دی جانی چاہئے تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔ ہم اپنی قدروں سے، اپنی روایات سے اور آئین کی روح سے بہت دور نکل آئے ہیں۔ سب سے زیادہ آبادی کا تمغہ بہت بڑی چیز ہے جسے نعمت ِ خاص کہا جانا چاہئے۔ اس سے فائدہ اُٹھانے کی بھرپور اور حقیقی معنوں میں تعمیری کوشش ہمیں واقعی وشو گرو بنا سکتی ہے۔ اس کیلئے شرط صرف اتنی ہے کہ ہم خود کو سمجھیں، روایات کی پاسداری کریں، اپنے آئین کو کلیدی اہمیت دیں اور آبادی کے ہر طبقہ کا احترام کریں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK