ریاست آسام میں شہریت ترمیمی قانون (این آر سی) کے خلافِ توقع نتائج کے بعد جس میں ۱۹؍ لاکھ میں سے ۱۳؍ لاکھ ہندوؤں کو غیرملکی شہری بتایا گیا، حکومت کو شہری قانون میں ترمیم کی سوجھی جس کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے غیرملکی شرنارتھیوں کو شہریت عطا کرنا اور مسلمانوں کو اس سے محروم رکھنا تھا۔
ہرگزرنےوالا سال اپنی تلخ وشیریں یادیں ذہنوں پر چھوڑ جاتا ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ محو ہوجاتی ہیں لیکن آج ختم ہونے والا سال جن کڑی آزمائشوں میں گزرا انہیں بھلانا آسان نہیں ہوگا۔ اگر کووڈ۔۱۹؍ کی عالمی وبا قہرِ الٰہی بن کر نازل ہوئی تو حکومت کا بغیر کسی پیش بندی اور تیاری کے لاک ڈاؤن نافذ کرنا، ناقابل برداشت اذیت کا سبب بنا۔ اس کی بڑی ضرب غریبوں اور مہاجر مزدوروں پر پڑی جن کے کھانے پینے اور جینے کے لالے پڑگئے۔ ذرائع نقل وحمل کی سہولت نہ ہونے سے لاکھوں مزدوروں کوسیکڑوں کلو میٹر دور اپنے گاؤں پہنچنےکیلئے پیدل چلنے پر مجبور ہونا پڑا۔ تقریباً ۲۰۰؍ مزدور ، روڈ ایکسیڈنٹ اور بھکمری کا شکار ہوگئے۔ لاک ڈاؤن کا دوسرا بڑا اور بُرا اثر پہلے سے چلی آرہی لڑکھڑاتی معیشت پر پڑا۔ کروڑوں بیروزگار ہوگئے، تنخواہوں میں کٹوتی ہوئی ، صنعتی پیداوار میں گراوٹ آئی، تجارت ٹھپ پڑ گئی، چھوٹے اور متوسط طبقے کے بیوپاری، کاروبار بند ہونے کی کگار پر آگئے۔ شرح نمو کی گراوٹ کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ ماہرین معاشیات اور بین الاقوامی مالیاتی اور ریٹنگ ایجنسیوں کی تنبیہ کے باوجود حکومت ان پر قابو پانے میں ناکام ہے۔
گزرنے والا سال کسانوں کی حالت بھی غیر کرگیا۔ زرعی قوانین کے خلاف دہلی کی سرحدوں پر ٹھٹھرتے موسم میں ان کے آندولن کا آج چھتیسواں دن ہے ۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ قوانین واپس لئے جائیں اورایم ایس پی کو قانونی شکل دی جائے۔ حکومت اس پر آمادہ نہیں۔ مودی نے قوانین کو اَنا کا مسئلہ بنالیا ہے۔ ان حالات میں ہم نہیں سمجھتے کہ ۳۰؍ دسمبر کو چھٹے دور کی میٹنگ نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔
۲۰۲۰ء مسلمانوں کیلئے سخت صبر آزما ثابت ہوا۔یوں تو ان کی پریشانیاں مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد ہی شروع ہوگئی تھیں لیکن ۲۰۱۹ء کے الیکشن میں بی جے پی کو ملی غیرمعمولی کامیابی نے حکومت کو مسلمانوں کے خلاف زیادہ کُھل کھیلنے اور ہندوتوا ایجنڈا نافذ کرنے کا حوصلہ دیا ۔چنانچہ (۱) طلاق ثلاثہ کو حکومت نے قانوناً جرم قراردیا (۲) لال قلعہ کی فصیل سے کشمیر کے مسئلہ کو کشمیریوں کو گلے سے لگاکر حل کرنے کا دعویٰ کرنے والے مودی نے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو یہ حل نکالا کہ جموں کشمیر کو خصوصی اور ریاستی درجہ دینے والے آرٹیکل ۳۷۰؍ پر ہی تیشہ چلادیا اورجموں کشمیر اور لداخ کو دومرکزی علاقوں میں تقسیم کردیا۔ حال ہی میں ہوئے ضلعی الیکشن میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے پر بی جے پی لیڈروں نے انتخابی نتائج کوآرٹیکل ۳۷۰؍ کی منسوخی کا ریفرنڈم قراردیا لیکن وہ بھول گئے کہ ’’گپکارا اتحاد‘ ‘کے لیڈروں کا انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لینے کے باوجود سیٹوں کے لحاظ سےبی جے پی سے کہیں آگے ہے۔ کشمیر کے تئیں حکومت کی عصبیت اور بدنیتی اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ آرٹیکل ۳۷۱؍ کے تحت شمالی مشرقی ریاستوں کو کشمیر کی طرح جو خصوصی حیثیت حاصل ہے حکومت نے اس سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ یہی رویہ گئوکشی اور بیف پرپابندی کے معاملے میں نظرآیا جس سےشمال مشرقی ریاستوں اور گوا کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ وجہ ظاہر ہے ان ریاستوں میں عیسائیوں کی اکثریت ہے جبکہ کشمیر مسلم اکثریت والی واحد ریاست تھی۔ (۳) نومبر ۲۰۱۹ء میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی تعمیر کو قانونی قراردیئے جانے کے باوجود، آستھا کی بنیادپر اس کی زمین رام مندر ٹرسٹ کے حوالے کردی اور امسال سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے مضحکہ خیز دلائل کی بنیادپر مسجد مسماری کے تمام ملزمین کو کلین چٹ دیدی ۔ یہ دونوں فیصلے آنے والے دنوں میں کیا قیامت ڈھائیں گے ، کہا نہیں جاسکتا کیونکہ ان فیصلوں کے بعد غاصبوں نے کئی مسجدوںپر دعویٰ ٹھوک دیا ہے۔ (۴) آسام میں این آر سی کے خلافِ توقع نتائج کےبعد جس میں ۱۹؍ لاکھ میں سے ۱۳؍ لاکھ ہندوؤں کو غیرملکی شہری بتایا گیا، حکومت کو شہری قانون میں ترمیم کی سوجھی جس کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے غیرملکی شرنارتھیوں کو شہریت عطا کرنا اور مسلمانوں کو اس سے محروم رکھنا تھا۔ دوسرے لفظوں میں اکثریتی بالادستی قائم کرنا اور مسلمانوں کو یہ جتانا مقصود ہے کہ مودی راج میں تمہاری حیثیت دوسرے درجے کے شہری سے زیادہ کی نہیں۔ دسمبر ۲۰۱۹ء میں شہریت ترمیمی قانون ( سی اے اے ) پاس کرکے حکومت نے ملک بھر میں این پی آر اور این آر سی کے نفاذ کا راستہ ہموار کردیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس قانون کے خلاف آواز اُس ریاست سے اٹھی جو این آر سی کا سبب بنی۔ چنانچہ احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ آسام سے شروع ہوکر شمال مشرقی ریاستوں تک جاپہنچا ان مظاہرین کے خلاف وہاں کی حکومتوں نے زیادہ سخت کارروائی نہیں کی لیکن جب جامعہ اور علی گڑھ یونیورسٹیوں کے طلبہ نے پرامن طریقے سے قانون کے خلاف آواز اٹھائی تو پولیس کریک ڈاؤن میں انہیں بری طرح پیٹا گیا۔ یہی صورت حال جے این یو میں پیش آئی۔ فرق یہ تھا کہ یہاں طلبہ اور اساتذہ کی پٹائی کرنے والے اے بی وی پی کے غنڈے تھے اور پولیس انہیں تحفظ فراہم کررہی تھی۔ کریک ڈاؤن میں پولیس زیادتی اور جے این یو کی غنڈہ گردی میں اُس کی اَن دیکھی کا یہ اثر ہوا کہ دیگر یونیورسٹیوں کے طلبہ مظلومین سے یکجہتی کے اظہار میں سڑکوں پر اترآئے۔ رفتہ رفتہ یہ مظاہرے ملک گیر تحریک میں بدل گئے لیکن اس کی طرف بین الاقوامی توجہ مبذول کروانے میں سب سے بڑا ہاتھ شاہین باغ میں دھرنے پر بیٹھی مسلم خواتین کا تھا ۔ کووڈ۔ ۱۹؍ اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس تحریک کو ملتوی کرنا پڑالیکن شہری اور غیر شہری ہونے کی تلوار مسلمانوں پر لٹکتی رہے گی۔
تبلیغی جماعت اور اس کے اراکین کو جس طرح بدنام کیا گیا اور جس طرح عدالتوں نے پولیس کی سرزنش کرتے ہوئےاراکین کو کلین چٹ دی اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ لوجہاد کے خلاف بی جے پی ریاستوں میں بننے والے قوانین ، مسلمانوں کو ہراساں اور گرفتار کرنے کا نیا حربہ ہے۔چار ہائی کورٹ نے پسند کی شادی اور اپنی مرضی سے تبدیلیٔ مذہب کو بنیادی حق بتایا ہے ۔ اب تک گرفتارشدگان میں کئی افراد رہا ہوچکے ہیں۔ اس طرح کی اوچھی اورظالمانہ حرکتوں سےبچنا بے حد ضروری ہے۔