وصیت کے مطابق نانا مرحوم مولانا عبدالماجد دریابادی کی نماز جنازہ مولانا ابو الحسن علی ندوی کی اقتدا میں ندوہ میں ادا کی گئی تھی۔ مولانا (دریابادی) کے نواسے علی (قدوائی) کی نماز جنازہ علی میاں کے قریبی عزیز اور ناظم ندوۃ مولانا بلال ندوی نے پڑھائی اور دوسری نماز جنازہ مولانا خالد رشید فرنگی محلی کی اقتدا میں عیش باغ قبرستان میں سوگواران کی کثیر تعداد کی موجودگی میں ادا کی گئی۔
علی قدوائی ۔ تصویر:آئی این این
اس جہان رنگ و بو میں وارد ہونے کے ابتدائی ماہ و سال خواہ آسائشوں میں گزرے ہوں یا تنگدستی میں (جس کا احساس اس وقت شاید ہی ہوتا ہو)، انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں ۔ اس عہد سے وابستہ ہر کھٹی میٹھی یاد انسانی وجود کو مسلسل روشن رکھتی ہے۔ بدلتے ہوئے زمانے کی گردش اولین تجربات کا نقش مٹانے سے قاصر رہتی ہے۔ اپنی مرضی کے عین مطابق اور پابندیوں سے مکمل آزادی، بے فکری، نادانی اور معصومیت سے عبارت یہ تشکیلی دور بہت جلد گزر جاتا ہے مگر انسان کی شخصیت سازی کے عمل میں اس کا رول سب سے اہم ہوتا ہے۔ اسی زمانے میں انسان اپنے ہونے کے امکانات کو بروئے کار لاتا ہے اور یہی وہ عرصہ ہوتا ہے جب دانائی، تعقل، سماجی اور اخلاقی اقدار کی پاسداری پر استوار زندگی کرنے کا طریقہ فطری معصومیت اور جذبات کے برملا اظہار پر پابندی نہیں لگا پاتا ہے۔ قابل رشک دستیابیوں ، فتوحات اور کامرانیوں کے ساتھ ساتھ مایوسی، بے بسی، بے مائیگی اور ناکامی کا مسلسل احساس کرنے والے انسان کو اپنی نجات اسی دور کو دوبارہ جی لینے میں نظر آتی ہے۔ چھوٹے بھائی عبدالعلی قدوائی کی جواں مرگی نے ان احساسات کو شدید تر کر دیا ہے۔ علی مجھ سے سات برس چھوٹے تھے اور ان کی نا وقت جدائی سے محسوس ہوا کہ اپنے پیاروں سے جدائی کی تیز مگر بے آواز بارش نے موسلادھار جھڑی لگا دی ہے اور صبر و ضبط کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے اور ندا فاضلی کی نظم کے مصرے ذہن میں تازہ ہو گئے :
’’تمہاری موت کی سچی خبر جس نے اڑائی تھی/ وہ جھوٹا تھا/ وہ تم کب تھے/ کوئی سوکھا ہوا پتا ہوا سے ہل کے ٹوٹا تھا/ مری آنکھیں / تمہارے منظروں میں قید ہیں اب تک/ میں جو بھی دیکھتا ہوں / سوچتا ہوں / وہ وہی ہے/ کہیں کچھ بھی نہیں بدلا!‘‘
علی سے متعلق پہلے منظر کا تعلق دریا باد سے ہے جہاں اب سے تقریباً نصف صدی قبل ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ میری والدہ حمیرہ خاتون اپنے والد مولانا عبدالماجد دریابادی کے ساتھ رہتی تھیں اور میں بھی دریاباد میں تھا۔ دریا باد کی لق و دق حویلی میں صحن کے داہنے اور بائیں طرف دہرے دالان تھے۔ بائیں طرف کے دوسرے دالان کو لکڑی کی دیواروں سے کمروں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ اس زمانہ میں علاحدہ علاحدہ کمروں کا نظم نہیں تھا۔ اسی دالان کے ایک بڑے کمرے میں امی اس زمانہ میں رہتی تھیں ۔ رات کا غالباً پچھلا پہر ہوگا، میں سو رہا تھا کہ اچانک نو زائیدہ بچے کے رونے سے آنکھ کھلی۔ قصبے کی تجربہ کار دائی مسلمین کے ہاتھوں علی کی ولادت ہوئی۔
نانا مولانا عبدالماجد دریابادی مرحوم اپنے نواسوں اور نواسیوں کی تعلیم و تربیت کو ہمیشہ بہت اہمیت دیتے تھے اور چھوٹے سے چھوٹے بچے کو خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال کرنے کیلئے اسے ایسی ذمہ داریاں سونپتے جس کا تصور بھی اس وقت کے عام مسلمان گھرانوں اور مدارس سے فارغ علمائے کرام نہیں کر سکتے تھے۔ میں نے ناظرہ قرآن ختم کیا تھا۔ نو زائیدہ بچے کے کان میں فوراً اذان دینے کا رواج تھا۔ بچے کے کان میں اذان دینے کی ذمہ داری عموماً عالم دین یا حافظ قرآن کو دی جاتی تھی مگر ابا (مولانا عبدالماجد دریابادی، ہم اپنے نانا کو ’ابا ّ ہی کہتے تھے) نے سات برس کے بچے سے اذان دلوائی تاکہ اس کے ذہن پر مذہبی احکامات کا نقش گہرا ہو جائے۔ والدہ مرحومہ، ابا کے خطوط، جو وہ مختلف افراد کو لکھتے تھے، ایک کاپی میں نقل کرتی تھیں اور یہ خدمت انہوں نے برسوں انجام دی۔ مکتوبات ماجدی جو چچا جان ڈاکٹر ہاشم قدوائی نے آٹھ جلدوں میں مرتب کی وہ ان کاپیوں کی وجہ سے ہی منظر عام پرآسکی۔ والدہ کو ڈائری لکھنے کی بھی عادت تھی۔ ان کے انتقال (۸؍اپریل ۲۰۰۵ء) کے بعد مجھے ان کی ڈائری دیکھنے کا اتفاق ہوا تو علم ہوا کہ علی کے کان میں اذان میں نے ہی دی تھی۔
علی کی ابتدائی تعلیم دریاباد میں ہوئی اور چھٹیوں میں جب ابا کی تینوں لڑکیوں کی اولادیں پروفیسر سلیم قدوائی (جواہر لعل نہرو یونیورسٹی)،رافع قدوائی (صحافی روزنامہ عزائم اور لکھنؤ دور درشن)، پروفیسر عبدالرحیم قدوائی (پروفیسر، شعبہ انگریزی اور ڈائریکٹر اکادمک اسٹاف کالج، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)، نافع قدوائی (صحافی، روزنامہ قومی آواز، راشٹریہ سہارا اور سیاست حیدرآباد)، عبدالمعز قدوائی (اسکارٹس، فرید آباد) اور رشید قدوائی (ملک کے مشہور انگریزی صحافی اور مصنف جو اس وقت بہت چھوٹے اور علی کے ہم عمر تھے) جمع ہوتے تو چھوٹے بھائیوں کو قرآن کے تیسویں پارے کی سورتیں یاد کرانے کی ذمہ داری رافع بھائی جو حافظ قران تھے، کے سپرد کی جاتی اور بعد مغرب جب ابا (نانا مرحوم) تصنیف و تالیف کے کاموں سے فارغ ہو کر زنان خانے میں آتے تو وہ خود اکثر سورتیں سنتے اور مختلف موضوعات پر اپنی لڑکیوں اور نواسوں اور نواسیوں سے گفتگو کرتے۔ اکثر پھوپھی زاد بھائی محفوظ الرحمن صدیقی (جو علی گڑھ سے لائبریری سائنس کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ممتاز ڈگری کالج سے بطور لائبریرین منسلک ہو گئے تھے) اور کبھی ابا کی سب سے چہیتی نواسی صدیقہ خاتون (زوجہ محمود الرحمٰن صدیقی) کے بڑے بیٹے نعیم (مولانا نعیم الرحمٰن صدیقی ندوی، سیکرٹری اسلامک مشن لکھنؤ، جو علی اور رشید کے تقریباً ہم سن تھے) بھی آ جاتے۔ علی کا حافظہ بہت اچھا تھا اور وہ سورتیں جلد یاد کر لیتےتھے۔
اونچی اونچی چھتوں ، برجیوں ، ستونوں اور بڑے بڑے دالانوں پر مشتمل حویلی نما مکان کے در و دیوار اور لمبے آنگن سے نظر آتے آسمان کو دیکھ کر ہمیشہ ایسا لگتا تھا کہ عصر اور مغرب کے بیچ کا وقت ہے خواہ وقت کوئی بھی ہو، صبح ہو یا دوپہر، ایسا لگتا تھا کہ دھوپ کی تیزی ختم ہو گئی ہے اور شام کے سائے دراز ہوتے جارہے ہیں ۔ مئی اور جون کی چلچلاتی دھوپ اور دسمبر اور جنوری کے یخ بستہ دن بھی بالکل ایسا ہی احساس کراتے۔ سہ پہر کے وقت ایک قریبی موضع کسبر سے ملائی برف والا آتا جو آہستہ سے صرف ایک بار آواز لگاتا اور تیز قدموں سے آگے بڑھ جاتا۔ اکثر یہ آواز صرف علی کو سنائی دیتی اور جب تک وہ باہر آتے وہ آگے بڑھ چکا ہوتا۔ دریا باد کا گھر گرمیوں اور جاڑوں کی چھٹیوں کے علاوہ نوکروں سے آباد رہتا کہ نانا مرحوم نانی کے انتقال کے بعد اپنی ایک بیٹی کے ساتھ رہتے تھے۔
بچوں کو کھلانے کیلئے بو ائیں موجود تھیں ۔ سائرہ بوا پہلے مجھے کھلاتی تھیں اور بے حد محبت کرتی تھیں ۔ بعد میں وہ علی کو کھلانے لگیں ۔ سائرہ بوا کو حج پر جانے کا بڑا ارمان تھا اور ان کی یہ خواہش پوری بھی ہوئی۔ جب وہ حج پر جانے لگیں تو انہوں نے علی، جن سے وہ حد درجہ محبت کرتی تھیں ، سے کہا، بیٹا دُعا کرو میں مکے میں سوارت ہو جاؤں (یعنی وہیں انتقال کر جاؤں )۔ علی بہت چھوٹے تھے لہٰذا بوا کے جانے کے بعد ہر روز دُعا کرتے تھے کہ اللہ میاں بوا وہیں سوارت ہو جائیں ۔ امی نے یہ سنا تو ان کو اس لفظ کے معنی بتائے تب علی خوب روئے اور اپنی دُعا قبول نہ ہونے کی دعا کرنے لگے۔
ابتدائی تعلیم کے بعد علی لکھنؤ آ گئے اور ان کا داخلہ اسکول میں ہو گیا۔ خاتون منزل میں چچا میاں حکیم عبدالقوی دریابادی، والد حبیب احمد قدوائی اور عمو جان عبدالعلیم قدوائی ساتھ رہتے تھے اور چچا جان ڈاکٹر ہاشم قدوائی چھٹیوں میں اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ آ جاتے تھے۔ رشید اور علی ہم عمر تھے اور رشید خاصے شوخ تھے۔ علی کو کھیل کود سے بہت دلچسپی تھی۔ چھوٹی امی زاہدہ خاتون (والدہ پروفیسر عبدالرحیم قدوائی اور رشید قدوائی) نے ان دونوں کو مغرب کے بعد پڑھانے کی ذمہ داری نافع بھائی کو دے دی کہ وہ زیادہ رو رعایت کے قائل نہیں تھے اور ان دونوں کو تقریبا دو گھنٹے تک پوری یکسوئی سے پڑھائی میں مصروف رکھتے۔ رشید اور علی کو یہ پابندی خوش نہیں آتی تھی۔ علی مطالعہ تو ضرور کرتے تھے مگر انہوں نے لکھنے سے اپنا سروکار کم ہی رکھا۔ اکتوبر ۲۰۱۴ء میں نافع بھائی کے انتقال کے بعد عزیزی نعیم الرحمٰن ندوی کی ایما پر انہوں نے اپنے بڑے بھائی نافع قدوائی پر ایک مختصر مضمون تحریر کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ میں نے اور رشید نے ان دنوں یہ منصوبہ بنایا تھا کہ ہم لوگ تیزی سے پیسہ جمع کر کے نافع بھائی کے حوالے کریں تاکہ وہ حج پر جا سکیں اور دو تین ماہ ان کے اچھے گزر جائیں ۔ اسی طرح جب مَیں ۱۹۸۱ء میں طالب علمی کے دوران قومی آواز کے شعبۂ ادارت سے منسلک ہوا تو انہوں نے بچوں کیلئے ایک دو کہانیاں بھی لکھیں جو قومی آواز میں شائع ہوئیں ۔ رشید نے ماشاء اللہ انگریزی صحافت میں بڑا نام کمایا اور وہ اس وقت ملک کے ممتاز کالم نگار، ٹی وی مبصر اور اہم ادیب ہیں جن کی تقریبا ایک درجن کتابیں پنگوئن، ہارپر کولنس اور دیگر اہم اشاعتی اداروں سے شائع ہو چکی ہیں ۔
خاتون منزل گولہ گنج میں ہم لوگ ساتھ رہتے تھے۔ علی ہم سب بھائیوں میں سب سے زیادہ خوش اخلاق اور نرم زبان تھے اور ان کو قرابت داری کا بہت پاس رہتا تھا۔ علی نے دوران تعلیم ہی گولا گنج میں ایک بزنس مین ہارون صاحب کے آفس میں بیٹھنا شروع کر دیا تھا اور وہ ان پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ علی کی عمر ۲۰۔۲۱؍ سال تھی۔ اکثر ہارون صاحب ان کو ۵۰؍ ہزار سے زائد رقم دیتے کہ فلاں شخص کو اس کی ادائیگی کر دو۔ ایک آدھ بار وہ یہ رقم لے کر گھر بھی آگئے۔ امی نے دیکھا تو انہوں نے ہارون صاحب کو بلا کر کہا کہ علی کی عمر بہت کم ہے اور بیٹا تم اتنی بڑی رقمیں بلا جھجک ان کے حوالے کر دیتے ہو، کبھی لغزش ہو جائے یا راستے میں رقم لٹ جائے! اِس پر ہارون صاحب نے کہا کہ علی کی دیانت اور فرض شناسی سے میں خوب واقف ہوں ۔
۱۹۹۵ء میں علی سرکاری ملازمت میں آگئے۔ ان کی تقرری محکمۂ آبکاری میں ہوئی جہاں وہ تا عمر رہے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے دفتر کے تمام رفقا بچشم نم آئے۔ محکمہ آبکاری کی شہرت اچھی نہیں ہے، یہاں کے ایک ملازم نے مجھے بتایا کہ ہمارے دفتر میں دست ِغیب کی رقم کا حصہ ہر ملازم کیلئے مقرر ہے مگر ’’بھیا‘‘ ایسے پیسے کو اپنے اوپر حرام سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ مَیں انتہائی مجبوری میں سور تو کھا سکتا ہوں مگر رشوت کا ایک پیسہ نہیں لے سکتا۔
علی کی آمدنی اور وسائل محدود تھے اس کے باوجود وہ ہر کسی کے ساتھ حسن سلوک کرتے۔ صلہ رحمی کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ بہنوئی عبدالرحمٰن سلمان علوی کے دوران ملازمت انتقال کے بعد ان کی پنشن اور کامران سلمہ کی ملازمت، سسر راشد فریدی کے انتقال کے بعد میری ساس قمر فریدی کے نام پنشن کے اجرا اور میری پھوپھی زاد بہن کے بیٹے بشیر کی ملازمت اور نہ جانے اس نوع کے کتنے معاملات خاندان والوں کے اور دیگر افراد کے علی نے حل کرائے۔ عبدالرحیم قدوائی اور رشید قدوائی وغیرہ جب بھی لکھنؤ آتے ان کے ہوٹل میں قیام وغیرہ کا نظم علی ہی کرتے تھے۔ رافع قدوائی کی گمشدگی اور نافع بھائی کے انتقال کے بعد لکھنؤ اور دریا باد کے تمام اعزہ و اقارب سے علی برابر تعلق رکھتے تھے اور ہم بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے ہونے کے باوجود غالب کے الفاظ میں بندش احباب (خاندان) کی ’’گیاہ‘‘ بن گئے تھے۔
نافع بھائی کی طویل اور صبر آزما علالت میں علی نے اپنے چھوٹے بھائی ہونے کا فرض پورے خلوص کے ساتھ نبھایا اور دوا اور علاج میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ نافع بھائی کے بیٹوں عزیزی عاصم اور عمار سے گہرا تعلق رکھتے تھے اور اسی طرح اپیا (میمونہ خاتون) جو سلمان بھائی کے انتقال کے بعد لکھنؤ منتقل ہو گئیں ، کا بھی بھرپور خیال رکھتے تھے۔
میری اہلیہ شائستہ اور بچوں شارف اور شاغل سے بھی ان کو تعلق خاطر تھا۔ جب بھی ان کا علی گڑھ آنا ہوتا تو شائستہ ان کی خاطر مدارات کا خاص اہتمام کرتیں جس کا وہ بڑی شکر گزاری سے ذکر کرتے۔ شائستہ سے ان کی خاصی بے تکلفی تھی، ابھی مارچ میں اہلیہ طلعت اور اکلوتی بیٹی زینب کے ساتھ علی گڑھ آئے تھے۔ زینب کو نویں کلاس میں داخلہ کا ٹیسٹ دلانے کیلئے۔ دو دن رکے۔ شائستہ نے مزید رکنے پر اصرار کیا تو علی نے کہا کہ میرے دفتر میں مہیلاؤں کی تعداد بہت ادِھک ہے لہٰذا سارا کام ہم لوگوں کو کرنا پڑتا ہے۔ علی ہندی الفاظ مزاح کے طور پر بکثرت استعمال کرتے تھے۔
علی کی شادی ۲۰۰۳ء میں طلعت کے ساتھ ہوئی اور وہ گزشتہ ۲۰؍ برس سے خوش و خرم ازدواجی زندگی گزار رہے تھے۔ طلعت علی کا ہر طرح سے خیال رکھتی تھیں ۔ شادی کے پانچ سال بعد زینب کی ولادت ہوئی۔ ہم تینوں بھائیوں میں کوئی بیٹی نہیں تھی اور امی کو بھی پوتی کا بہت ارمان تھا۔ زینب کی پیدائش کے وقت امی دنیا میں موجود نہیں تھیں ۔ علی نے زینب سے متعلق فیس بُک پر ایک تحریر لکھی جس میں انہوں نے زینب کی آمد اور امی کے نہ ہونے کا بہت مؤثر ذکر کیا تھا۔ ملک کے مشہور کانوینٹ اسکول لوریٹو کالج میں زینب کے داخلے نے بچی کی اعلیٰ تعلیم کے علی کے دینہ خواب کی تکمیل کر دی تھی اور وہ بہت خوش تھے۔ علی زینب کو عام تصور کے برخلاف ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کے خواہاں نہیں تھے بلکہ اسے بی اے، ایل ایل بی کے بعد جج بنانے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ زینب اپنے مثالی (Dotting) والد کی دائمی جدائی پر انتہائی صبر و ضبط کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اللہ اسے ہر طرح کی ترقیوں سے سرفراز فرمائے۔
علی کے اچانک انتقال سے پورے خاندان میں صف ماتم بچھ گئی۔ علی کے احباب اور ان سے فیض یاب ہونے والوں کا وسیع حلقہ مغموم ہے۔ گھر تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ امریکہ میں مقیم میرے بیٹے شارف قدوائی نے ان پر ایک بہت پراثر تحریر لکھی اور مجھے کئی بار فون کر کے صبر کی تلقین کی۔ میں ان اضطراب آسا اور اندوہ آگیں لمحات میں بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ بڑا بھائی مَیں ہوں ، طبیعت میری ٹھیک نہیں تھی اور بالکل اچانک رخصت ہو گئے علی۔ شارف نے کہا کہ یہ اصلاً زندہ رہ جانے کا احساسِ خطا (Survival Guilt)ہے جو صدمے کو شدید تر کر دیتا ہے۔ یہ نفسیاتی توجیہہ اپنی جگہ مگر ہمہ وقت رنج و الم کے گہرے احساس سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
نانا مرحوم نے وصیت کی تھی کہ ان کی نماز جنازہ علی میاں پڑھائیں اور۶ ؍جنوری ۱۹۷۷ء کو ان کی نماز جنازہ مولانا ابو الحسن علی ندوی کی اقتدا میں ندوہ میں ادا کی گئی۔ مولانا کے نواسے علی کی نماز جنازہ علی میاں کے قریبی عزیز اور ناظم ندوۃ مولانا بلال ندوی نے پڑھائی اور دوسری نماز جنازہ مولانا خالد رشید فرنگی محلی کی اقتدا میں عیش باغ قبرستان میں سوگواران کی کثیر تعداد کی موجودگی میں ادا کی گئی۔
علی نماز کے بہت پابند تھے اور اول وقت میں نماز ادا کرتے تھے۔ کسی کام میں دیر ان کو گوارا نہیں تھی۔ انہوں نے جانے میں بھی بہت جلدی کی، اتنی تیزی تو وہ نماز ادا کرنے یا دوسروں کے کام کرنے میں دکھاتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ایسا لگتا ہے کہ نماز ادا کرنے تیز قدموں سے مسجد گئے ہیں یا کسی کے الجھے ہوئے کام کو پورا کرنے نکلے ہیں اور ابھی واپس آ جائیں گے۔ علی کے جانے کے بعد میں نے امین آباد، نظیر آباد، گولہ گنج اور قیصر باغ کی سڑکوں کے بے ارادہ چکر لگائے۔ میرا خیال تھا کہ علی کے بعد ان محلوں کی رونقوں اور قہقہوں سے آباد سڑکیں ہلکی سی تبدیلی اور اداسی کا احساس ضرور کرائیں گی مگر کہیں بھی کچھ بھی نہیں بدلا، سب کچھ ویسا ہی ہے، بالکل ویسا ہی۔ میں شور سے آباد سناٹے کے اثر میں ہوں اور اپنی بے مائیگی اور بے بضاعتی کے لمحوں میں علی کی سرگرم موجودگی کا احساس کر رہا ہوں ۔