اقتدار کو نہرو سے خوف کیوں ہے؟ کیونکہ نہرو کا نظریہ تھا:’’کمزور حکومت، مضبوط عوام۔‘‘ جبکہ آج کی سیاست چاہتی ہے:’’مضبوط حکومت، خاموش عوام۔‘‘اسی لئے نہرو کو مٹانا ضروری ہے۔
جواہر لال نہرو۔ تصویر: آئی این این
جی ہاں! ۲۰۱۴ ءکی آزادی کے بعد ہر بات پر نہرو پر حملہ کیوں ہوتا ہے؟پارلیمنٹ میں نہرو کا سایہ رہتا ہے۔۱۹۶۴ ءمیں وفات پانے والا ایک سیاستدان، آزادی کے ساٹھ برس بعد بھی ذہنوں سے کیوں نہیں نکلتا؟ جواہر لال نہرو آر ایس ایس کی فکر کے سینے میں گڑا ہوا کانٹا کیوں ہیں؟
نہرو تین تاریخوں میں
نہرو ۱۵؍ اگست۱۹۴۷ء ہیں۔نہرو ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء ہیں۔نہرو۲۵؍اکتوبر۱۹۵۱ء ہیں۔ یہ ۳؍ تاریخیں آزادی، آئین اور انتخاب۔ ہندوستان کے نئے باب کے تین ستون ہیں۔یہ پرانا ہندوستان نہیں تھا۔یہاں نہ بادشاہ تھا، نہ آمر، نہ مذہب یا ذات پر کوئی خاص حق۔اقتدار اب ایک شخص کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اداروں میں تقسیم تھا۔اس کی حدیں مقرر تھیں، اس کا دائرہ محدود۔ہر پانچ سال بعد عوام اس کا لائسنس دوبارہ جاری کرتے تھے۔آئین اس حکومت کے ہاتھ باندھ دیتا ہے۔تاکہ وہ رعایا پر ظلم نہ کر سکے۔وہ انصاف کی بات کرتا ہے۔سماجی، اقتصادی اور سیاسی۔وہ آزادی دیتا ہے۔ خیال کی، اظہار کی، مذہب اور عبادت کی۔وہ مساوات کی ضمانت دیتا ہے۔ موقع اور حیثیت دونوں میں۔اور وہ اخوت کا بندھن باندھتا ہے۔ جہاں ہر انسان کی عزت برقرار رہے۔یہ وہ لکشمن ریکھا ہے جسے کوئی بھی حکومت پار نہیں کر سکتی۔کیا یہ کسی مطلق العنان حکمران کے لئے ایک ڈراؤنا خواب نہیں؟
نہرو اور کمزور حکومت
نہرو نے ایسی حکومت بنائی جو جوابدہ ہو۔آئین نے کہہ دیا کہ’’حکومت صرف پالیسی کے دائرے میں رہے اس سے باہر سر مت اٹھانا۔‘‘نہرو کے ہندوستان میں حکومت کے ہاتھ باندھے گئے، تاکہ وہ رعایا پر رعب نہ ڈال سکے۔عدالت حکومت کے فیصلے کو بدل دیتی ہے، الیکشن کمیشن اسے خبردار کرتا ہے۔ پریس اس سے سوال کرتا ہے۔نہرو نے ایسی قوم پیدا کی جو وزیرِاعظم کا گریبان پکڑ کر پوچھتی ہے:’’اس آزادی سے مجھے کیا ملا؟‘‘اور نہرو مسکرا کر کہتے:’’میرا گریبان پکڑنے کی آزادی ملی، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘‘نہرو کمزور حکومت سے مطمئن تھے،کیونکہ ان کے پاس علم کی طاقت تھی، گاندھی کی وراثت تھیاور عوام پر یقین تھا۔
جدید ہندوستان کے معمار
وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، نفاست سے بھرپور،
دنیا میں مقبول۔ان کے پاس آزادی کی جدوجہد کی ساکھ تھی اور ترقی کا خواب۔انہوں نے صنعتیں لگائیں، نئے شعبے کھڑے کئے،ادارے قائم کئے، اسکول اور اسپتال بنائے،سڑکیں، بند، فوج سب کچھ۔انہوں نے سائنس، جمہوریت اور خود انحصاری کی بنیاد رکھی۔انہوں نےکشمیر کو ہندوستان کا حصہ بنائے رکھا، گوا کو آزاد کرایا۔عوام ان پر فدا تھے اور ہر وزیرِاعظم کسی نہ کسی حد تک نہرو جیسا بننا چاہتا تھااور یہی بات بعضوں کو کھٹکتی تھی۔ اقتدار کو نہرو سے خوف کیوں ہے؟کیونکہ نہرو کا نظریہ تھا:’’کمزور حکومت، مضبوط عوام۔‘‘ جبکہ آج کی سیاست چاہتی ہے:’’مضبوط حکومت، خاموش عوام۔‘‘اسی لئے نہرو کو مٹانا ضروری ہے۔کہا جاتا ہے: نہرو نے جو ملک بنایا وہ غلط تھا،اس کی سرحدیں غلط، اس کے قانون غلط، اس کی فوج اور افسر غلط۔حتیٰ کہ اس کی پیدائش، اس کی محبت، اس کا جنون، سب غلط۔اس کا خاندان غلط۔نہرو کی یاد کو مٹا کر ایک نیا ’دھرم راج‘ قائم کرنا ضروری ہےجہاں بادشاہ ’خدا‘ ہو،سب پر قادر، سب پر حاکم۔
نہرو بمقابلہ دھرم راج
دھرم راج میں بادشاہ کی مرضی ہی قانون تھی۔وہاں پارلیمنٹ نہیں تھی، اختلاف نہیں تھا۔عوام صرف ہاتھ جوڑ سکتے تھے،انصاف کی گھنٹی بجا سکتے تھے مگر سوال نہیں پوچھ سکتے تھے۔نہرو نے اس کے بالکل برعکس ہندوستان بنایا۔جہاں عوام سوال کرتے ہیں حکومت جواب دیتی ہے۔جہاں بادشاہ نہیں، آئین سب سے اوپر ہے۔اسی لئے جو لوگ دھرم والی حکومت چاہتے ہیں،ان کے لئے نہرو کا نظریہ ناقابلِ برداشت ہے۔
آج کا ہندوستان اور نہرو کی وراثت
آج ہم پھر ایک موڑ پر کھڑے ہیں۔لوگ دھرم دھن میں مست ہیں مگر آزادی گنوا رہے ہیں۔ سوال کرنے کی ہمت کم ہو رہی ہےاور جو سوال کرے، وہ دیش دروہی قرار پاتا ہے۔یہ نہرو کی وہ ’کمزور‘ حکومت نہیں ہے،یہ طاقتور، مطلق العنان حکومت کا دور ہے جسے کسی سے ڈر نہیں،سوائے ایک چیز کے باشعور عوام سے،اور نہرو کی وراثت سے۔کیونکہ جب عوام سوچتے ہیں تو اقتدار لرزتا ہے۔جب شہری جاگتا ہے تو بادشاہ سو نہیں سکتا۔اسی لئے حملہ نہرو پر ہوتا ہے۔کیونکہ نہرو کا نام دراصل جمہوریت کا دوسرا نام ہے۔