Inquilab Logo

نوجوانو! اُٹھو زندگی کے اُجالے آپ کا انتظار کر رہے ہیں

Updated: April 02, 2024, 12:47 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

وہ نوجوان جو کسی وجہ سے اپنا تعلیمی سلسلہ ترک کرنے پر مجبور ہوگئے تھے یا گھر کے معاشی حالات کے سبب فوری طور پر ملازمت کرنا ان کیلئے ضروری تھا، وہ اگرچاہیں تو تھوڑی سی قربانی اب بھی اُن کی زندگی میں بہار لا سکتی ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ایسا کئی بار ہوتا ہے کہ انسان جو چاہتا ہے وہ نہیں بن پاتا۔ کیوں ہوتا ہے ایسا؟کئی وجوہات ہیں اس کی، جیسے : (الف) کمزور قوت ارادی (ب) دُور اندیشی کا فقدان (ج) صبر کی کمی وغیرہ۔ انہی کمزوریوں کی بناء پر انسان میں خود احتسابی کا وصف ختم ہو جاتا ہے اور وہ یہ تجزیہ بھی نہیں کرپاتاکہ وہ ناکام ہوا ہے یا نا کامی کو اپنے اوپر لا دے پھر رہا ہے۔ 
 آج ہمارا روئے سخن انہی نو جوانوں سے ہے جو کسی بظاہر چھوٹی سی غلطی سے زندگی کی بازی ہار گئے، پھر بس وہ ہارہی گئے۔ دوسروں نے انہیں باور کرایا کہ اب زندگی کی بازی جیتنا اُن کیلئے ممکن نہیں اسلئے انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اورکہنے لگے کہ زندگی اُن سے روٹھ گئی ہے جبکہ زندگی آج بھی انہیں گلے لگانے کیلئے تیار ہے۔ بس دیر اس بات کی ہے کہ وہ تھوڑی دیر کیلئے بڑی سنجیدگی سے خود کا احتساب کریں اور زندگی کے ٹوٹے ہوئے مکان کی ایک ایک اینٹ جوڑنے کی سکت اپنے اندر پیدا کر لیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: ربِّ کائنات نے جوعلم ہمیں دیا ہے، وہ ایک جوابدہی ہے،اسلئے اس علم کو ہمیں دوسروں میں تقسیم کرنا ہی ہے

 اسکول ڈراپ آؤٹ :
 زندگی سے روٹھے اس قبیل کے افرا وزندگی کی ٹرین کے تیسرے درجے میں سفر کر رہے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جن کا اب دم گھُٹ رہا ہے۔ کووِڈ کی وبا کے بعد توکئی قسم کی ذہنی ونفسیاتی بیماریوں کا شکار بھی ہو چکے ہیں۔ ہم اُن سے عرض کرنا چاہیں گے کہ اب بھی کوئی دیر نہیں ہوئی ہے۔ تعلیم سے برسوں پہلے ٹوٹا ہوا رشتہ اب بھی جُڑ سکتا ہے۔ مثلاً ڈراپ آؤٹ طلبہ کیلئے اب حکومت نے کافی سہولتوں کا انتظام کیا ہے۔ ایسے سارے طلبہ جو صرف چوتھی جماعت پاس ہیں اور عمر۱۴؍ سال سے زائد ہو وہ اب کسی بھی اسکول بلکہ سید ھے سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ کے دفتر جا کر اپنی نامکمل تعلیم کو کم از کم ایس ایس سی تک لے جاسکتے ہیں۔ یہی نہیں جو افرا دریاضی یا سائنس مضامین کومشکل پاتے ہیں اور انہی مضامین کے ڈر اورخوف نے انہیں تعلیمی دھارا سے الگ کر دیاتھاوہ بھی اب اوپن اسکولی نظام سے ایس ایس سی کا امتحان دے سکتے ہیں، ریاضی اور سائنس مضامین کو چھوڑ کر وہ کوئی بڑا سائنسی اور تکنیکی کورس تو نہیں کر پائیں گے البتہ دیگر کئی کورسیز میں داخلہ لے کر خودکفیل بلکہ خوشحال بھی بن سکتے ہیں۔ 
 غلط فیصلے والے :
 آج زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں نوجوانان نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنی کریئر پلاننگ میں فاش غلطیاں کی تھیں، وہ غلط رہنمائی یا غلط فیصلوں کا شکار ہو گئے، نقل کرنے گئے اور اب اُن کی عقل ہی کام نہیں کر رہی ہے کہ آگے کیا کریں۔ مثلاً وہ نوجوان جو کسی لحاظ سے سائنس کے شعبے کیلئے مناسب نہیں تھے غلط رہنمائی یا نقل کرنے میں اُس شعبے میں گئے۔ ناکام ہوئے یا جوں توں کامیاب ہوئے، اب ایسے موڑ پر آ گئے کہ کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے کیونکہ جھوٹی انا کا بھی شکار ہو گئے نیز ایک اور بیماری ذہن پر غالب آگئی کہ’ لوگ کیا کہیں گے؟‘ اسی بناء پر ایک جگہ رُکے ہوئے ہیں، آگے بڑھ نہیں پارہے ہیں۔ ہم ان سے کہنا چاہیں گے کہ اب وہ اپنے مزاج میں تبدیلی لائیں۔ جس شعبے میں آپ ناکام ہوئے ہیں، اُس سے نکل آئیں اور دوسرے شعبے میں داخل ہو جا ئیں۔ بہت بڑی کامیابیاں شاید نہ ملیں مگر زندگی کی دھارا میں وہ جڑ ضرورجائیں گے۔ 
 ادھورے خواب والے:
 آج ہمارے یہاں ایسے بے شمار افراد موجود ہیں جن کے خواب تشنہ رہ گئے اور اسلئے مایوسی، یا سیت اور فرسٹریشن کے ایسے شکار ہو گئے کہ ان کی شناخت مشکل ہو گئی ہے کہ کیا یہ وہی افراد تھے جو کبھی اپنے اسکول میں سرخرو رہا کرتے تھے۔ ٹیچر کا سوال پورا ہونے سے پہلے ہاتھ اونچا کیا کرتے تھے۔ آج اپنی پست ہمتی اور دیگر کئی وجوہات کی بناء پر زندگی کے اُجالوں سے دُور دُور ہیں۔ زندگی سے ربط پیدا کرنے کے اب بھی مواقع دستیاب ہیں مثلاً کسی کو گریجویشن کے بعد ایم بی اے کا کورس کرنا تھا، مگر گھر کے حالات نہیں تھےیا دیگر تقاضوں کی بنا پر وہ نہیں کر سکے، حالات نے اب ’بابو گیری‘ پر مجبور کر دیا۔ کسمپرسی سے دو چار ہیں البتہ اگر اس کسمپرسی کو اپنے اوپر لادنے کے بجائے وہ اگر زندگی سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں، تھوڑے متحرک ہو جاتے ہیں تو ملازمت کے ساتھ ساتھ مینجمنٹ کے جُزوقتی (پارٹ ٹائم) کورسیز کر سکتے ہیں۔ آج کئی مینجمنٹ کے اداروں میں ایسے کار آمد کورس دستیاب ہیں۔ بس آپ کو طالب علم بن جانا پڑے گا۔ ملازمت سے آنے کے بعد رات کا کھانا کھانے کے بعد فور اًبستر پر لیٹ جانے کے بجائے کُرسی پر بیٹھ کر دو تین گھنٹے پڑھائی کرنی ہے، نوٹس تیار کرنے ہیں، اعادہ کرنا ہے یعنی اپنے آرام و نیند میں روزانہ تین گھنٹوں کی کٹوتی! مگر اب کلرک بابو کے بجائے آپ منیجر بن رہے ہیں۔ 
گلف کے مارے: 
 ہماری قوم کے ہزاروں بلکہ لاکھوں نوجوان وہ ہیں جنہوں نے جلد بازی میں خلیجی ملک کا رُخ کیا۔ کچھ کی تو بڑی مجبوری تھی البتہ اکثر جلد کمانے کے خواہش ( بلکہ ہوس ) لے کر وہاں پہنچے۔ پھر انہوں نے سوچا نہیں کہ انہیں وہاں نوکری تومل سکتی ہے مگر کر یئر نہیں۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ علم اور نالج کے کن ہتھیاروں سے لیس ہو کر انہیں وہاں جانا چاہئے تھا تاکہ ایک پائیدار کریئر انہیں ملے۔ کسی ایجنٹ یا رشتہ دار سے انہیں ویزا مل گیا اور ویزا ہی کو وہ مستقبل سمجھ بیٹھے۔ وہاں جانے کے بعد اب انہیں احساس ہورہا ہے کہ اُن کی جلد بازی کی قیمت وہ کس طرح ہر ماہ قسطوں میں ادا کر ر ہے ہیں۔ انہیں اگر چہ بطور ہیلپر یا سیلس مین ہر ماہ ہندوستانی کرنسی میں بیس ہزار ماہانہ مل رہے ہیں البتہ انہوں نے کوئی ایک قلیل مدّتی ٹیکنیکل کورس کیا ہوتا تو چالیس ہزار ملتے اور کوئی دو قلیل مدّتی کورس کئے ہوتے تو پچاس یا ساٹھ ہزار ماہانہ ملتے۔ وہ سمجھ لیں کہ اب بھی زندگی کی بازی وہ ہارے نہیں ہیں۔ تھوڑی سی قربانی اب بھی اُن کی زندگی میں بہار لا سکتی ہے۔ ٹیکنیکل اِسکل نہ ہونے کی بناء پر آپ کی ترقی نہیں ہو رہی ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ جب چھٹیوں میں وطن واپس آئیں تو وہ کوئی شارٹ ٹرم ٹیکنیکل کورس کرلیں۔ 
رِ کشااور ٹیکسی والے: 
 ممبئی کے ایک بڑے فلاحی ادارے میں اسکالر شپ یا تعلیمی امداد کیلئے آنےوالے طلبہ کا انٹرویو لے کر اُن کی تعلیمی امداد طے کرنے کی ذمہ داری گزشتہ تین دہائیوں سے ہم پر عائد ہے۔ وہاں آنے والے طلبہ سے جب ہم سوال پوچھتے ہیں کہ آپ کے ابّا کیا کرتے ہیں ؟ ہر دس بچّوں میں سے ۶؍ کا جواب ہوتا ہے: ’’ٹیکسی، رِکشا چلاتے ہیں ‘‘ کبھی کبھی تو ہم چکرا جاتے ہیں کہ کیا پوری قوم ٹیکسی یارکشا ہی چلا رہی ہے؟
 لیکن سوال یہ ہے کہ چوتھی/ ساتویں پاس یہ افراد اور کر بھی کیا سکتے ہیں ؟ لیکن نہیں .... آج ملک کے مختلف شہروں میں ایسے ٹیکنیکل پرائیویٹ ادارے قائم ہوگئے ہیں جو ساتویں پاس افراد کو بھی قلیل مدّتی ٹیکنیکل کورسیز کراسکتے ہیں۔ ان اداروں میں آسان ہندی زبان میں پڑھایا جاتا ہے، کم سے کم تھیوری، کم سے کم اشکال اور زیادہ پریکٹیکل اس نوعیت کے ایسے ٹیکنیکل کورسیز ہیں، یہ کورسیز کرکے وہ رِکشا /ٹیکسی ڈرائیور ایک قلیل مدّت میں ہنرمند ٹیکنیشین بن سکتے ہیں۔ 
  زندگی بڑی قیمتی ہے۔ زندگی کی جن غلطیوں اور خامیوں سے آپ کی زندگی آج اندھیروں کی نذر ہے، انہیں ذہن سے نکال دیجئے۔ ہر کسی کو زندگی میں اُجالوں کیلئے چاند سورج نہیں ملتے، ایک آدھ چراغ سے بھی زندگی کامیاب ہو سکتی ہے۔ آجاؤ! زندگی کے اُجالے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK