اظفار الحق ذکی پر لکھنے کیلئے اتنا کچھ ہے کہ پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر یہاں ملت کیلئے اُن کی معاشی کاوشوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔
EPAPER
Updated: December 22, 2025, 10:58 PM IST | Doctor Shariq Nisar | Mumbai
اظفار الحق ذکی پر لکھنے کیلئے اتنا کچھ ہے کہ پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر یہاں ملت کیلئے اُن کی معاشی کاوشوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔
اظفارالحق ذکی کے انتقال (۲۶؍نومبر۲۰۲۵ء بہ عمر ۸۵؍ سال) سے پیدا شدہ خلاء کا پُر ہونا مشکل ہے۔ محبتاً اور احتراماً ’’قاضی جی‘‘ کہلانے والے اظفار الحق کا شمار نجیب آباد کے بااثر، محترم اور معزز بزرگوں میں تھا ۔ ان کے انتقال سے ۵۰؍ سال سے زائد عرصے پر محیط عوامی خدمت کا ایک شاندار دَور ختم ہوگیا ۔ اِن ۵۰؍ برس میں انہوں نے لاکھوں زندگیوں کو متاثر کیااور انہیں سنوارا۔
۴؍ مئی ۱۹۴۰ء کو یوپی کے معزز زمیندار گھرانے میں آنکھیں کھولنے والے اظفارالحق ذکی نے زندگی کی آسائشوںاور محرومیوں دونوں کو قریب سے دیکھا اور انہیں دیکھتے ہوئے ہی عمر کی منزلیں طے کیں۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کے خاندان نے اپنی جائیداد کا بڑا حصہ سود خور ساہوکاروں کے ہاتھوں کھو دیا۔ یہ ایک ایسا جھٹکا تھا جس نے اُن کے کچے ذہن پر بہت گہرا اثر مرتب کیا۔ اوائل عمری میں آن پڑی اِس افتاد ہی کے سبب ان کی زندگی کے مشن کو متشکل کیا اور اس کی راہ ہموار کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ایس سی اور ایل ایل بی مکمل کرنے کے بعد جب وہ گھر لوٹے تو دیکھا کہ ان کا خاندان اب بھی استحصالی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اسی وقت، جسے وہ بعد میں اکثر یاد کیا کرتے تھے، انہوں نے عہد کیا کہ وہ دوسروں کو بھی اس ظلم اور استحصال سے بچانے کیلئے کوشاں رہیں گے۔
۱۹۷۱ء میں اسی عزم کے تحت انہوں نے مسلم فنڈ نجیب آباد (ایم ایف این) کی بنیاد رکھی۔ عزم مصمم کے ساتھ قائم کئے گئے اس فنڈ کا واحد مقصد عام خاندانوں کو سود پر مبنی استحصالی قرض کے چکر سے آزاد کرانا تھا۔ ان کی ثابت قدم اور اصولی قیادت میں ایم ایف این نے ترقی کی اور ہندوستان کا سب سے بڑا مسلم فنڈ بن گیا، جس کے پاس ۶۵۰؍ کروڑ روپے سے زائد کے ڈپازٹس، ملک بھر میں اس کی ۴۰؍ سے زائد شاخیں اور ۴؍ لاکھ سے زیادہ ممبرس ہیں۔ ایک ایسے ادارے کا نگراں ہونے کے باوجود جس کے اثاثوں کی مالیت ایک ہزار کروڑ روپے سے زائد تھی، ذکی صاحب کی زندگی بہت سادہ تھی۔ ادارہ سے وہ معمولی تنخواہ لیتے اور اپنی ساری توانائی سماجی فلاح کیلئے وقف کئے رہتے۔ وقت کے ساتھ چند دہائیوں میں ایم ایف این کا دائرۂ کار مائیکرو فنانس کی حد سے تجاوز کر گیا۔ ان کی رہنمائی میں اس ادارہ نے اسکولوں، خیراتی اسپتالوں، ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس اور متعدد سماجی پروگراموں کی سرپرستی بھی کی۔ ان میں قرضِ حسنہ اسکیم اور کمزور خاندانوں کیلئے روزگار سے متعلق تعاون شامل ہے۔۱۹۹۰ء میں انہوں نے ’’النجيب ملی میوچوئل بینی فٹس لمیٹڈ ‘‘قائم کیا جو آج ایک بڑی نِدھی کمپنی ہے جس کی ۵۵؍ سے زائد شاخیں ہیں۔
مسلم معاشرہ کیلئے ذکی صاحب محض ایک مالیاتی ادارے کے بانی نہیں تھے۔ وہ ایک رہنما، سرپرست اور نہایت محترم بزرگ تھے جن سے ہر چھوٹے بڑے معاملے میںصلاح و مشورہ کیا جاتا اور رہنمائی حاصل کی جاتی۔ ان کی نرم مزاجی، خاموشی کی قوت اور انصاف کیلئے چٹا ن جیسے حوصلے نے لاکھوں افراد ِ ملت کے دلوں میں ان کیلئے عزت و احترام پیدا کیا۔ ان کی خدمات کا دائرہ نجیب آباد تک محدود نہیں ہے۔ انہوں نے ملک بھر کے مسلم فنڈس اور سود سے پاک اداروں کیلئے بنائے گئے مشترکہ پلیٹ فارم ’’فیڈریشن آف انٹریسٹ فری آرگنائزیشنس‘‘(ایف ای ایف او۔FIFO) کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ جب بھی ملت کے کسی مالیاتی ادارے کو مشکلات کا سامنا ہوتا ذکی صاحب اس کی مدد کیلئے سب سے پہلے آگے بڑھنےوالوں میں ہوتے۔ اسلامک ویلفیئر سوسائٹی بہرائچ اور ممبئی کے برکت گروپ کیلئے ان کی مسلسل حمایت معاشرہ کے غریب اور پسماندہ طبقات کی مالی بہبود سے ان کی گہری وابستگی کا ثبوت تھی۔
۱۹۹۶ء میں جب ’ٹاٹا اسیٹ مینجمنٹ‘نے ’ٹاٹا کور سیکٹر ایکویٹی فنڈ‘ متعارف کرایا تو ذکی صاحب اس کے زبردست حامیوں میں شامل تھے۔ انہوں نے این ایف او (نیو فنڈ آفر) مرحلہ میں ہی اس اسکیم کی بھرپورحمایت کی۔ انہوں نے آسرا کوآپریٹیو کریڈٹ سوسائٹی کو اس کے سب سے مشکل دور میں سہارا دیا اور ایسے وقت میں اس میں نئی جان ڈالنے میں اس کی مدد کا بیڑا اُٹھایا جب کوئی اور یہ ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔
دہائیوں تک یہ صورتحال رہی کہ جب بھی کسی مسلم فنڈ یا ملی مالیاتی ادارے کو بحران کا سامنا ہوتا یا رہنمائی کی ضرورت پڑتی تو سب سے پہلے ذکی صاحب سے رجوع کیا جاتا۔ ان کے مشورے جو اخلاقی بنیاد پر اور وسیع تجربے کا نچوڑ ہوتے تھے، اعتماد کے ساتھ طلب کئے جاتے تھے۔ ذکی صاحب اپنے پیچھے ایسے ادارے چھوڑ گئے ہیں جو اُن کی جرأت، شفقت اور مالی انصاف کیلئے ان کے غیر متزلزل عزم کی یادگار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا انتقال ایک عہد کا خاتمہ ہے مگر ان کا وژن ان کی وراثت ہے جو اُن بے شمار خاندانوں کی زندگیوں کو روشن کرتا رہے گا جنہوں نے ان کی کاوشوں کی وجہ سے وقار حاصل کیا، مواقع پائے اور ناامیدی سے نجات حاصل کی۔
اس مضمون کا مطالعہ کرتے وقت قارئین محسوس کررہے ہوں گے کہ مرحوم اظفار الحق نے ایسے شعبہ میں ملت کیلئے قائدانہ کردار ادا کیا جس پر عموماً کسی کی نظر نہیں جاتی۔ نہ تو مسائل کا ادراک ہوتا ہے نہ ہی حل کا شعور۔ مرحوم نے سود کی لعنت سے بچنے کی راہ دکھائی اور سودی قرض کے بوجھ سے نجات پانے کا وسیلہ پیدا کیا اور اس میں قدرت نے اُنہیں بڑی کامیابی عطا کی۔ انتقال سے قبل کے برسوں میں صحت اور ضعف کے پیش نظر اُنہوں نے کمالِ احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور افرادِ ملت کی رقومات کے امانت ہونے کے احساس کے پیش نظر مسلم فنڈ کا مالی حجم کم کرنے اور سرگرمیوں کو سمیٹنے پر توجہ دی اور جو ممبران اس ادارے میں اپنی رقم لگائے رکھنا چاہتے تھے اُن کا اعتبار قائم رکھنے کیلئے اُنیں اپنا کھاتہ النجیب ملی میوچوئل بینی فٹس لمیٹڈمیں منتقل کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اُن کے قائم کردہ ادارہ کا نام مسلم فنڈ ضرور تھا مگر اس سے وابستہ ہونے اور استفادہ کرنے والوں میں نجیب آباد، ممبئی، دہلی اور بنگلور کے بہت سے غیر مسلم خاندان بھی شامل تھے۔
وہ جو کہا گیا تھا کہ ’’بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘ تو ذکی صاحب کی شخصیت اور خدمات کو اس کسوٹی پر پرکھا جاسکتا ہے۔ مَیں نے اُنہیں قریب سے دیکھا، اُن پر بہت کچھ لکھا جاسکتا تھا مگر کوشش کی گئی کہ اُنہی باتوں کا احاطہ ہو جن سے قرضوں کے جال میں پھنسے بے بس انسانوں کے تئیں اُن کی مخلصانہ فکرمندی اور عملی کاوشوں پر روشنی پڑے۔ ضروری ہے کہ اُن کا مشن آگے بڑھتا رہے اور ہر طرح کے چیلنجوں سے نمٹنے کے قابل ہو۔ n
(مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی ہیں)