مایہ ناز ادیب، نقاد، محقق، مترجم اور صحافی ظؔ انصاری کی برسی (۳۱؍ جنوری) کی مناسبت سے ندیم صدیقی کی محولہ بالا کتاب سے چند اقتباس جو ظؔ صاحب کی شخصیت کے متنوع پہلواُجاگر کرتے ہیں۔
EPAPER
Updated: January 27, 2025, 5:19 PM IST | Literature Desk | Mumbai
مایہ ناز ادیب، نقاد، محقق، مترجم اور صحافی ظؔ انصاری کی برسی (۳۱؍ جنوری) کی مناسبت سے ندیم صدیقی کی محولہ بالا کتاب سے چند اقتباس جو ظؔ صاحب کی شخصیت کے متنوع پہلواُجاگر کرتے ہیں۔
ظؔ انصاری نے اپنی عملی زندگی ایک معلم ہی کی طرح شروع کی مگر اسی کے ساتھ ساتھ ان کی صحافتی زندگی کی بھی ابتدا ہوتی ہے، جیسا کہ گزشتہ صفحات پر شریمان سونڈھیؔ کا ذکر ہوا ہے جو ’کیرتی لہر‘ کے نام سے ایک انقلابی اخبار نکالتے تھے۔ یہ وہی کامریڈ سونڈھیؔ ہیں جن کی صحبت نے ظؔ انصاری کو کارل مارکس کی تحریروں سے روشناس کرایا اور ظؔ انصاری کے بیانیے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کامریڈ سونڈھیؔ ہی کے ہاں ان کے ذہن میں صحافت کا بیج پڑا۔ صحافت میں ظؔ انصاری کے رسالے ’آئینہ‘ کا تذکرہ ان کے اولین کارنامے میں شمار کیا جاتا ہے جو پہلے مشہور زمانہ ادارۂ شمع (دہلی) سے ظؔ انصاری ہی کی ادارت میں جاری ہوا اور پھر جب وہاں سے وہ علاحدہ ہوئے تو ۱۹۶۵ء میں ممبئی سے ’آئینہ‘ کا اجرائے ثانی ہوا۔ ہماری ناقص معلومات میں یہ ’آئینہ‘ اردو کا اولین السٹریٹیڈ جریدہ تھا، فوٹو آفسیٹ پر چھپنے والا ’آئینہ‘ دیکھتے ہی دیکھتے خاص و عام کی توجہ ہی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا بلکہ اس کے مشمولات اور موضوعات کی ہمہ رنگی و ہمہ جہتی نے اسے اردو والوں میں مقبول بھی بنا دیا۔
اسی سلسلے میں ایک گواہی مولانا حسن عباس فطرتؔ کے قلم نے یوں دی ہے:
’’…یکبارگی بازار میں ادارۂ شمع (دہلی) کا نیا شگوفہ ’آئینہ‘ آگیا، پڑھا تو باچھیں کھل گئیں، ظؔ انصاری اسے ایڈٹ کررہے تھے، سو ہم نے بہت بعد میں جانا، آئینہؔ میں ظؔ انصاری کو اپنی جملہ صحافتی و ادبی صلاحیتوں اور جوانی کے جذبات کو سمونے کا بھرپور موقع ملا اور مختصر سی مدت میں آئینہؔ کے ساتھ وہ بھی خوب چمکے، خصوصاً دلی کے اونچے حلقوں میں اُن کی قدر شناسی بھی ہوئی اور رفت و آمد بھی بڑھی، بات دوسری طرف نہ مڑنے پائے اس کا خیال رکھتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہے کہ ’آئینہ‘ اُن کی شخصیت کی علامت بن گیا تھا اور وہ اسے کسی وقت میں نہیں بھولے، وہ آئینہ جیسی صاف شفاف، نستعلیق و چم چم کرتی ہوئی بے لاگ و بے رعایت زندگی جیے اور تمام عمر تنہائی و ملامت کی صلیب پر لٹکے رہے، نہ اُن سے اپنے خوش تھے نہ بیگانے مگر وہ آئینہ کا کام کرتے رہے اور نتائج کو بھی جھیلتے اور سینے سے لگاتے رہے۔ ‘‘
٭٭٭
ندیم ِ ندیم شاہد ندیمؔ کے ولیمے کی تقریب تھی۔ مہمان رخصت ہورہے تھے بلکہ ہم تمام دوست جب مجروحؔ سلطانپوری کو گاڑی پر بٹھا کر رخصت کررہے تھے تو ظؔ انصاری کو ٹیکسی سے اترتے دیکھا۔ شادی ہال میں ظؔ انصاری کی آمد سے لوگوں کے چہرے کھل رہے تھے۔ ہم سب کھانے سے فراغت پا چکے تھے۔ اب ظؔ انصاری کو کھانے کی میز پر بٹھایا گیا اور تمام لکھنے پڑھنے والے اُن کے اردگرد کھڑے ہوگئے۔ ہم نے اپنے ہم عمر ابھرتے ہوئے ایک اچھے شاعر نظام الدین نظامؔ کا تعارف کرایا تو نظامؔ جس کو اپنی صلاحیتوں کا کچھ ’احساس‘ ہوچلا تھا، اُس نے کہا: ڈاکٹر صاحب ہم جیسے نئے لکھنے والوں کو نہ جانتے ہوں گے… منہ میں لقمہ ڈالتے ہوئے ظؔ انصاری گویا ہوئے:
’’میاں نظامؔ صاحب! گزشتہ اتوار کو آپ کی جو غزل روزنامہ انقلاب (ممبئی) کے ادبی صفحے پر چھپی تھی، اُس میں آپ نے لفظ ’’لالچ‘‘ کو تانیث باندھا ہے جبکہ ’لالچ‘ آپ کی طرح مذکر ہے۔ ‘‘
٭٭٭
ظؔ انصاری کا حافظہ اور اُن کا مطالعہ گاڑی کے دو پہیوں کی طرح تھے۔ ایک بار کسی نے اُن سے دوزخ پر بحث چھیڑ دی۔ اس نے سوال کیا کہ دوزخ کو تانیث ہی کیوں سمجھیں ؟
ظؔ انصاری نے برجستہ کہا کہ حضرت! اگر دلی والی دوزخ پسند ہے تو وہ آپ کو تانیث ہی ملے گی اور اگر لکھنوی گنہگار ہیں تو دوزخ، مذکر کی صورت آپ کا منتظر ہے … یہ کہہ کر ایک لمحے کا سکوت اور پھر ظؔ انصاری نے اقبالؔ سیالکوٹی کے دہلوی استاد کا یہ شعر داغ دیا:
رند مے خوار ہی پیتے ہیں پلا کر، ورنہ = اپنی دوزخ کو بھرا کرتے ہیں بھرنے والے
اسی پر بس نہیں کیا، کہنے لگے کہ دیکھو ببرعلی انیسؔ شکوہ کرتے ہوئے اس لفظ کو کیسے تذکیر جتلا گئے ہیں :
بھری ہے کون سی یار! دلِ انیسؔ میں آگ = کہ جس کی آنچ سے دوزخ کباب رہتا ہے