ایک سازگار اور پُرامن ماحول بچّے کی بہترین نشوونما کیلئے ضروری ہے۔ جس میں والدین کا آپسی خوشگوار تعلق کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن جب گھر کا ماحول خاندانی جھگڑوں ، گھریلو تنازعات، بحث و تکرار اور تلخ کلامی، اختلافات اور مسلسل کشیدگی کی آماجگاہ بنارہتا ہے تب اِس کے گہرے اور تباہ کن اثرات معصوم بچوں پر پڑتے ہیں۔
خوشگوار ماحول میں بچوں کی تربیت بہتر انداز میں ہوتی ہے۔ تصویر:آئی این این
گھر محض چار دیواری کا نام نہیں یہ ایک پناہ گاہ اور بچوں کی پہلی درسگاہ ہوتا ہے جہاں اُن کی شخصیت، کردار اور مستقبل کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اولاد زندگی کی بہار اور حاصل ِ زندگی ہوتی ہے۔ ایک سازگار اور پُرامن ماحول بچّے کی بہترین نشوونما کیلئے ضروری ہے۔ جس میں والدین کا آپسی خوشگوار تعلق کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن جب گھر کا ماحول خاندانی جھگڑوں ، گھریلو تنازعات، بحث و تکرار اور تلخ کلامی، اختلافات اور مسلسل کشیدگی کی آماجگاہ بنارہتا ہے تب اِس کے گہرے اور تباہ کن اثرات معصوم بچوں پر پڑتے ہیں اور اُن کی معصوم روح پر ایسا زخم چھوڑتے ہیں جو تاحیات بھر نہیں پاتا۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کون سی وجوہات بچوں کی نفسیات پر اثر انداز ہوتی ہیں:
ذہنی اثرات: خاندانی اور گھریلو تنازعات کے دوران بچّے خوف، اضطراب اور ذہنی دباؤ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بچے ماں اور باپ دونوں سے محبّت کرتے ہیں وہ اِس کشمکش میں رہتے ہیں کہ کس کی طرفداری کریں۔ یہ کشمکش ان کے ذہن میں انتشار پیدا کرتی ہے اور وہ ہمیشہ خوف اور بےچینی کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ انہیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ والدین ایک دوسرے کو مزید نقصان پہنچائیں گے اور خاندان میں بھی لوگ ایک دوسرے نفرت کرنے لگیں گے۔
احساسِ کمتری اور تنہائی: تناؤ زدہ ماحول میں پلنے والے بچّے اکثر مایوسی اور تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور لوگوں سے اور معاشرے سے کٹے کٹے رہتے ہیں۔ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ڈپریشن اور چڑچڑا پن: تحقیق کے مطابق تناؤ زدہ اور جھگڑیلو ماحول میں پروان چڑھنے والے بچوں کی طبیعت میں چڑچڑا پن، غصہ اور ضد کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے وہ مستقل طور پر ڈپریشن اور چڑچڑے پن کا شکار رہتے ہیں۔
جسمانی صحت پر منفی اثرات: مسلسل ذہنی دباؤ اور انتشار کے باعث بچوں میں نیند کی خرابی اور دیگر صحت کے مسائل در پیش ہوتے ہیں۔ مثلاً سر درد، پیٹ کا درد، کاہلی و سستی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جارحانہ اور مشتعل رویہ: والدین کا جھگڑالو رویہ بچوں کے کردار میں منفی کردار ادا کرتا ہے۔ وہ اپنے والدین کو چیختے، لڑتے اور بعض اوقات مار پیٹ کرتے دیکھتے ہیں تو وہ بھی اِسی رویے کو اپنا رول ماڈل سمجھ لیتے ہیں۔ وہ گھر میں اور گھر کے باہر لوگوں سے بلند آواز میں بات کرنے اور جھگڑنے کے عادی ہوجاتے ہیں یہ دراصل اُن کے اندر پلنے والی بے چینی اور غصے کا اظہار ہوتا ہے۔ ایسے بچے ضدی، ہٹ دھرم اور بدتمیز ہوجاتے ہیں۔ اور معاشرے میں اچھے و مثالی تعلقات قائم نہیں کر پاتے ہیں۔ بھائی، بہنوں میں بھی محبت اور ہم آہنگی ہو نہیں پاتی۔
تعلیمی اور سماجی اثرات: گھریلو ناانصافی و ناچاقی بچوں کی تعلیمی اور سماجی زندگی کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ذہنی انتشار اور بے چینی کی وجہ سے بچے تعلیم پر توجہ مرکوز نہیں کر پاتے ہیں اُن کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں ختم ہوجاتی ہیں جس کا براہِ راست اثر اُن کی تعلیمی کارکردگی پر پڑتا ہے۔
سماجی کاموں سے دوری: خوف اور اضطراب کی وجہ سے بچّے سماجی طور پر الگ تھلگ ہوجاتے ہیں۔ اسکول یا معاشرے یا سماجی کاموں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے کتراتے ہیں۔ بچے ذمے داریاں اُٹھانے کے بجائے خودسر اور لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
خوداعتمادی میں کمی: بہت سے بچے یہ سمجھتے ہیں کہ شاید گھر کا فساد اُن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ احساسِ جرم اُن کی خود اعتمادی اور خودداری کو آہستہ آہستہ مٹا دیتا ہے۔ وہ گم صم رہنے لگتے ہیں۔
رشتوں کا تسلسل: سب سے سنگین اثر یہ ہوتا ہے کہ والدین کے خراب تعلقات، جھگڑوں کے اثرات ایک نسل سے دوسری نسل تک جاری رہتے ہیں جو بچے لڑائی جھگڑوں میں پلے ہیں وہ جوان ہو کر اپنی ازدواجی زندگی میں بھی اسی تناؤ اور تشدد کو لے کر جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے رشتوں میں ہم آہنگی، اور محبت و خلوص کا مثبت نمونہ نہیں دیکھا ہوتا ہے۔
گھریلو جھگڑوں سے بچنے اور اُنہیں حل کرنے کی مؤثر تجاویز
یہ تجاویز نہ صرف تناؤ کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے بلکہ بچوں کے سامنے والدین کا ایک بہتر اور مثالی نمونہ بھی پیش کرتی ہے۔
والدین پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑوں سے گریز کریں۔
اگر آپسی اختلافات ہوں تو انہیں شائستگی، نرم گفتاری اور لحاظ و تمیز کے ساتھ حل کریں۔
والدین ایکدوسرے کا احترام کریں۔ بدکلامی سے پرہیز کریں اور مل کر ذمہ داریاں اٹھائیں تاکہ بچوں کے سامنے ایک خوبصورت نمونہ پیش ہوسکے کہ رشتوں میں ہم آہنگی کیسے پیدا کی جاتی ہے۔ اس انہیں رشتے مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔
گھر کو بچّوں کے لئے سب سے محفوظ جگہ سمجھنا چاہئے ناکہ جنگ کا میدان! آپ کا رویہ آپ کے بچّوں کی شخصیت کا معمار ہے۔ گھر کا ماحول بچوں کی شخصیت کا آئینہ بن جاتا ہے۔ اگر اس آئینہ پر خوف، تلخی اور کشیدگی کے دھبے ہوں تو آنے والی نسلیں بھی اِن اثرات سے محفوظ نہیں رہتیں۔ لہٰذا والدین اور خاندان کے بزرگوں پر لازم ہے کہ بچوں کے سامنے گھریلو مسائل پر بحث کرنے کے بجائے حکمت، محبّت اور بردباری سے حل کریں، کیونکہ ایک پُرسکون ماحول اور گھر کی پُرسکون فضا ہی روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔