Inquilab Logo

اوڑھنی اسپیشل: ہمارے علاقے کی افطار کی خاص ڈش اور وقت ِ افطار کا ماحول

Updated: April 04, 2024, 2:01 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

In Nakhda Mohalla (cloth market), many women can be seen sitting in Baig Muhammad Park for Iftar. Photo: INN
ناخدا محلہ (کپڑا مارکیٹ) میں بہت سی خواتین روزہ افطار کیلئے بیگ محمد پارک میں بیٹھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ تصویر:آئی این این

غیر مسلم پڑوسی بھی اس ماہ کا احترام کرتے ہیں


یوں تو ہم جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں پر سبھی مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے علاقے میں افطار کا وقت کافی پُر رونق ہوتا ہے۔ کیونکہ مسلم لوگوں کے ساتھ ساتھ بہت سے غیر مسلم بھی ہمارے علاقے کی خاص ڈش جیسے کہ چکن، مٹن کے اسپیشل فرائی آئیٹمز، فیرنی، فالودہ وغیرہ کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ اور ہمارے غیر مسلم پڑوسی کے گھر جب افطار دی جاتی ہے تو کافی خوش ہوتے ہیں اور کئی بار وہ اس افضل مہینے کی فضیلت جاننے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ جب وہ لوگ افطار کی دعوت میں شرکت ہیں تو ان میں بھی روزہ رکھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اُن کے دلوں میں اسلام کے تعلق سے مثبت باتیں ذہن میں آتی ہے اور ان کے دل میں بھی رمضان کیلئے ادب و احترام بڑھ جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوتی ہے۔
شیخ تحسین حبیب (گھنسولی، نوی ممبئی)
ناندیڑ کا خاص پکوان تہاری
مَیں ناندیڑسے تعلق رکھتی ہوں۔ ناندیڑ کے خاص پکوان کی بات کریں تو ناندیڑ کی تہاری بے حد مشہور و مقبول ہے۔ افطار کی دعوت ہو یا کسی کی مہمان نوازی کر نا ہوں بطور خاص پکوان تہاری کا انتخاب کیا جاتا ہے جو بہت مزیدار ہوتی ہے۔ ہر عمر کے افراد اسے پسند کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی میں دو اور پکوان کا اضافہ کرنا چاہوں گی جو کہ بے حد مقبول ہے اور ہر عام وخاص کی پسند ہے ہریس اور چکن ۶۵۔ ماحول کی بات کریں تو رمضان المبارک میں افطار کے وقت کافی چہل پہل اور رونق ہوتی ہے۔ ہر روزہ دار افطار کی تیاری کیلئے مصروف نظر آتا ہے۔ بازاروں میں ایک طرح کی رونق لگ جاتی ہے اور لوگوں کی آمدورفت کے باوجود بھی ماحول میں ایک طرح کا سکون نظر آتا ہے۔ افطار کے وقت سبھی روزے دار دعاوں کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ اور بعد افطار نماز مغرب کے بعد خواتین مرد بچے سبھی تراویح کیلئے تازہ دم ہو جاتے ہیں۔ اس مبارک مہینے میں ہر کوئی عبادت میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں کوشاں نظر آتا ہے۔
سمیرہ گلنار محمد جیلانی (ناندیڑ، مہاراشٹر)
شولاپور: لوگوں کے دلوں میں ہمدردی کا جذبہ


میرا تعلق شولاپور سے ہے۔ یہاں کا خاص پکوان ’دال گوشت‘ ہے۔ بنانے کا طریقہ اور ذائقہ ہی سب سے اہم چیز ہے۔ ہم شولاپور ایئر پورٹ کے قریب رہتے ہیں اس لئے یہاں زیادہ تر ایسے لوگ آباد ہیں جو ملازمت پیشہ ہیں۔ وقت ضرورت ملاقات ہوتی ہے۔ البتہ لوگ بہت اچھے ہیں۔ روزانہ ہر گھر سے مسجد میں افطاری پہنچائی جاتی ہے۔ یہاں بسنے والے سبھی صاحب حیثیت کے ساتھ ساتھ فراخدل بھی ہیں۔ عورتوں کیلئے تراویح کا خاص انتظام ہوتا ہے۔ رات ۲؍ بجے پورے علاقے کے لوگ جاگ جاتے ہیں اور بچے باہر کھیلتے ہیں۔ طاق راتوں میں بیانات کا سلسلہ ہوتا ہے۔ اعتکاف میں لوگ موجود ہوتے ہیں اور ان کی خدمت کیلئے باقی لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں کوئی اُنہیں سحری کا انتظام کراتا ہے تو کوئی افطار سے۔ اس طرح پر سکون اور ادبی ماحول نظر آتا ہے۔
آفرین عبدالمنان شیخ (شو لاپور، مہاراشٹر)
عصر کی نماز کے بعد گلی کوچوں میں بچوں کی بھیڑ


ماہ صیام کی ساری رونق سحری و افطاری سے ہے۔ ہمارے علاقے میں دوپہر ہی سے افطاری کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں اور ۴؍ بجتے ہی چوک پر دکانیں سج جاتی ہیں۔ قیمہ سموسہ زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ اس کی دکانوں پر لوگوں کا ہجوم دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ عصر کی نماز کے بعد گلی کوچوں میں بچوں اور نوجوانوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔ بچے افطاری کی تیاریوں میں حصہ لیتے ہیں، محلوں میں نوجوان افطاری کی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں اور گھروں میں عورتیں بھی مختلف قسم کے پکوان بناتی ہیں جن کی خوشبو پورے علاقے میں پھیلی رہتی ہے۔ علاقے کی مساجد کے دسترخوان پر امیر، غریب، مسافر، نادار، مساکین سب ایک ساتھ بیٹھ کر افطاری کرتے ہیں اور اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں۔
فردوس انجم ( بلڈانہ، مہاراشٹر)
اپنے ممبرا میں کسی چیز کی کمی نہیں!


ممبرا مسلم آبادی کی اکثریت والا علاقہ ہے۔ یہ شہر ممبئی کے بھنڈی بازار ناخدا محلہ اور کرافٹ مارکیٹ سے کم نہیں ہے۔ اس شہر کے رہائش پذیر چکن اسٹارٹر اور شاورما کے شیدائی ہیں۔ رمضان کی محبوب ڈش مالپوہ بھی ہر کسی کو پسند ہے۔ امرت نگر سے کوسہ پیٹرول پمپ تک ان گنت ہوٹلز اور شاورما کی مختلف دکانیں ہیں۔ افطار کے وقت ممبرا شہر کا ماحول عام دنوں سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ متعدد قسم کے پھلوں کے سیکڑوں ٹھیلے، ہر طرف افراتفری کا ماحول، ہر کسی کو جلدی اپنی ضرورت کا سامان لے کر اپنی رہائشی مقام پر پہنچنے کی، کئی قسم کی کھجوریں اور اتنا کچھ کے قلم بند کرنا ناممکن ہے۔ نظم و ضبط کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ غرضیکہ ممبرا میں کسی چیز کی کمی نہیں۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
روح پرور اور ایمان افروز ماحول


مَیں فی الحال جلگاؤں خاندیش میں مقیم ہوں اور یہاں افطاری میں پلاؤ اور کھچڑا کافی پسند کیا جاتا ہے۔ کچھ صاحب حیثیت افراد پیسے اکٹھا کرکے پلاؤ یا کھچڑا بنواتے ہیں اور مساجد میں تمام روزہ داروں کو افطاری کروائی جاتی ہے۔ خواتین کیلئے بھی گھروں میں افطاری بھیجنے کا نظم کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ برادران ملت ایک ہی دسترخوان پر افطار کرتے ہیں۔ آپسی محبت اور یگانگت کو فروغ ملتا ہے۔ امیر، غریب، چھوٹے، بڑے کا کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ اللہ کے گھر میں اللہ کے عاجز بندے ایک چھت کے نیچے جمع ہو کر تمام عالم اسلام کیلئے دعا کرتے ہیں۔ بیحد روح پرور اور ایمان افروز ماحول ہوتا ہے۔ بس دل یہ چاہتا ہے کہ یہ روحانی مہینہ ہمیشہ کیلئے ٹھہر جائے۔
نکہت انجم ناظم الدین (مانا، مہاراشٹر)
گھروں کی رونق اور دینی ماحول قابلِ دید


ہمارے علاقے میں ایک خاص قسم کے پکوڑے افطار کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ انہیں چوپ کئے ہوئے آلو اور گاجر سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس میں چلی پاؤڈر، اوریگینو، نمک، کارن فلور اور سیاہ مرچ پاؤڈر مکس کرکے انہیں فرائی کر لیا جاتا ہے۔ چٹنی کے ساتھ افطار کیلئے پیش کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ علاقہ مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اسلئے دکانوں پر بھی افطار کے وقت مختلف لذیذ مٹھائیاں، پکوڑے اور پکوان، مشروب خوردنی اشیاءکی خرید و فروخت کی وجہ سے کثیر بھیڑ دیکھی جا سکتی ہے۔ مساجد میں اجتماعی افطار کا منظر بہت ہی خوشگوار اور ایمان افروز ہوتا ہے۔ گھروں میں رونق اور دینی ماحول قابلِ دید ہوتا ہے۔ مجموعی طور پراس علاقے میں رمضان بہت ہی با برکت اور خوشگوار مہینہ ہوتا ہے۔
سلطانہ صدیقی (جامعہ نگر، نئی دہلی)
شہر ممبرا کے مشہور رشین کٹلیٹ


ممبرا کے بازاروں میں فرائی آئیٹمز بیچنے والی دکانوں پر لوگوں کا ہجوم نظر آتا ہے لیکن ’رشین کٹلیٹ‘ واحد ایک ایسا اسٹارٹر ہے جو ممبرا والے کافی پسند کرتے ہیں۔ اسے خریدنے کیلئے لوگ قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ کٹلیٹ فروخت کرنے والے دکاندار اپنے کام میں کافی ماہر ہوتے ہیں۔ وہ جلدی جلدی اپنے گاہکوں کا آرڈر پورا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ افطاری سے قبل بازار ایک خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔ گاہکوں کی بھیڑ، دکانداروں کی آوازیں، اُن کا لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا ایک مخصوص انداز، برقی قمقموں سے آراستہ و پیراستہ دکانیں، گھروں کو لوٹتے ہوئے روزہ دار، مساجد سے نکلتے ہوئے نمازی غرض ہر چیز ماحول کو نورانی بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ 
خان امرین حفاظت (ممبرا، تھانے)
ایک خاص فضا کو محسوس کیا جاسکتا ہے


چونکہ مَیں ایک مخلوط مذاہب والے علاقے میں رہتی ہوں تو میرے یہاں افطاری کے وقت وہ مسلم محلوں والوں مخصوص ماحول نہیں ہوتا لیکن پھر بھی رمضان والی ایک خصوصی فضا کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے علاقے میں افطار کیلئے بہت سے آئیٹمز ملتے ہیں لیکن خصوصیت سے میں جس کا ذکر کرنا چاہوں گی وہ ہے ’چکن شاہی رول‘۔ چکن کے اندر چیز بھر کر فرائی کیا جانے والا یہ رول بہت زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ بڑوں سے لے کر بچوں تک سبھی کا پسندیدہ یہ رول ۴۰؍ سے ۶۰؍ روپے تک میں مل جاتا ہے۔ بالخصوص دہلی ذائقہ میں ملنے والا شاہی رول میرے خیال میں سب سے زیادہ عمدہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گھروں کا ماحول پُر رونق ہوتا ہے۔
رضوی نگار اشفاق (اندھیری، ممبئی)
رمضان کی رونق اور امین آباد


لکھنؤ میں رمضان کی اصل رونق تو چوک اور امین آباد میں دیکھنے کو ملتی ہے جہاں پہلے روزے ہی سے بازاروں میں بہار اتر آتی ہے۔ جیسے جیسے مغرب کا وقت قریب آتا ویسے ویسے انواع قسم کی افطاری کے ٹھیلے سج جاتے ہیں، طرح طرح کی پکوڑیوں کے ساتھ منفرد پکوان بھی روزه داروں کا صبر آزمانے میں پیچھے نہیں رہتے۔ ایک خاص چیز جو خاص رمضان میں بنتی ہے، وہ ’’سهال شاخیں‘‘ ہے۔ جو بھی ایک بار اسے کھاتا ہے اس کا ذائقہ ہمیشہ اسے یاد رہ جاتا ہے۔ مغرب کےوقت چاروں طرف سے لوگ افطاری لے کر مسجد کی طرف جاتے نظر آرہے ہیں، کچھ افطار کی غرض سے، کچھ عبادت کی غرض سے۔ یہ منظر بڑا خوبصوت ہوتا ہے۔ رمضان کی رونق قائم رہے (آمین)۔
فرح حیدر (اندرا نگر، لکھنؤ)
ہمارے گھر میں ’مونگوچھی‘ بنتی ہے


ہمارے گھر کی تیاری ۲؍ بجے ہی سے شروع ہو جاتی ہے۔ سب سے پہلے چنا بنتا ہے۔ پھرمسور دال کو پیس کر کھچڑی بنائی جاتی ہے۔ قیمہ کا سموسہ بنتا ہے۔ بریڈ پکوڑے، بینگن کے پکوڑے اور میٹھے میں گلگلے تلے جاتے ہیں۔ مونگ دال سے بننے والی مونگوچھی بنتی ہے۔ گھر کی جتنی عورتیں ہوتی ہیں سب لگ جاتی ہیں۔ کسی کو سارے پھل کاٹنے کی ذمہ داری ملتی ہے تو کسی کو شربت بنانے کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے۔ اس کے بعد پانی رکھنا، سارے افطار کو دسترخوان پر سجانا اور اس طرح سے سیٹ کرنا کہ سارے لوگوں کا ہاتھ پہنچ سکے۔ سب کے پلیٹ میں کھجور اور سارے آئیٹم لگانا۔ پھر سبھی افراد خانہ افطار کیلئے پہنچ جاتے ہیں اور دعائیں شروع ہو جاتی ہیں۔ بڑا ہی خوشگوار ماحول ہوتا ہے۔
نشاط پروین (مونگیر، بہار)
افطار کے وقت ہر کوئی دعا میں مشغول ہوجاتا ہے


ہمارے علاقے کی افطار کی خاص ڈش قیمہ کا سموسہ ہے۔ یہ خاص ڈش ہر گھر میں افطاری کے دستر خوان پر لازماً موجود ہوتی ہے اور روزہ دار اس کے ذائقہ کا لطف اٹھاتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں وقت افطار کا ماحول بہت ہی پر کشش ہوتا ہے۔ جگہ جگہ کھانے پینے کی منفرد اشیاء فروخت ہوتی ہے اور خریداروں کی بھیڑ لگی ہوتی ہے۔ بچے پڑوسیوں اور ہمسایوں کے یہاں افطاری پہنچاتے ہیں۔ ہر گھر سے ذائقےدار پکوان کی خوشبو اور کوکر کی سیٹیوں کی آوازیں آتی ہیں۔ وقت افطار ہمارے علاقے کا ماحول منفرد پکوانوں کے ذائقے دار خوشبوؤں سے مہک اٹھتا ہے۔ افطار سے کچھ وقت پہلے ہر طرف سناٹا اور خاموشی چھا جاتی ہے اور ہر کوئی دعا و افطار میں مشغول ہو جاتا ہے۔
خان نرگس سجاد (جلگاؤں، مہاراشٹر)
دال اور نان کی روٹی


دال اور نان کی افطاری ہمارے علاقہ میں سب سے مشہور ہے۔ اس کو اہل بلگرام بہت پسند کرتے ہیں۔ جب جب رمضان کا مبارک مہینہ آتا ہے تو بازاروں کا الگ ہی نظارہ ہوتا ہے اور دکان پر بہت ہی زیادہ بھیڑ ہوتی ہے۔
شریفہ بیگم عرف مرو (بلگرام، یوپی)
سیوئی کو دودھ میں بھگو کر کھاتے تھے
میرا میکے بھیونڈی ہے۔ شادی سے پہلے کا رمضان یاد آتا ہے۔ ابھی کافی تبدیلی آگئی ہے۔ پہلے صرف گھر کے بنے کھانوں کو ترجیح دی جاتی تھی۔ افطار میں سموسہ ضرور بنتا تھا۔ سحری میں سیوئی کو دودھ میں بھگو کر کھاتے تھے۔ مسجدوں سے صدا آتی رہتی تھی۔ بڑا ہی خوشگوار ماحول ہوتا تھا۔
نسرین ایم سلیم (ممبئی)
تاریخی شہر اور نورانی ماحول
ہمارے پیارے شہر کا نام ہے رسول پور۔ یہ ایک تاریخی اور تہذیبی شہر ہے۔ اولیاء اللہ کی سر زمین ہے۔ حضرت دیوان غیاث الدین کی سر زمین ہے۔ میں جس محلے میں رہتی ہوں وہ تاریخی قلعہ گڑی سے لگ کر ہے اور وہ محلہ کافی اچھا ہے۔ افطار کے وقت کی رونق دیکھنے لائق ہوتی ہے۔ طرف نورانی ماحول ہوتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے ہمارے علاقوں میں آج بھی دین کی رمق باقی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ یہ ماحول اسی طرح بر قرار رکھے (آمین)۔
غازیہ نہر شیخ جاوید (رسول پور، مہاراشٹر)
علاقائی اور روایتی کھانوں کا اہتمام
رمضان المبارک کے مہینے میں ہر جگہ افطاری کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن کچھ چیزیں ہر دسترخوان پر ملتی ہے۔ جیسے کھجور، شربت، پھل فروٹ، لیکن کچھ علاقے اور روایتی کھانوں کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ ہمارے علاقے میں چوڑا، چر موڑا، چنا، بیسن کے پکوڑے، چنا کا حلوہ، سوجی کا پاپڑ، آلو کا پاپڑ، بیگن کا پکوڑا، آلو کا پکوڑا وغیرہ کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وقت افطار گھر کے ہر فرد ایک ساتھ مل کر دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ افطاری کا آغاز کرتے ہیں۔ اس وقت کا ماحول بڑا ہی دلکش ہوتا ہے اور قلب کو مسرت ہوتی ہے۔
گلناز مطیع الرحمٰن قاسمی (مدھوبنی، بہار)
چنے کی گھنگنی اور مٹر کے چھولے
رمضان کا مہینہ تمام مہینوں میں سب سے زیادہ افضل اور بابرکت مہینہ ہے۔ اس کی رونق ہی کچھ الگ رہتی ہے۔ ہمارے گاؤں میں سبھی کے گھر چنے کی گھنگنی اور مٹر کے چھولے بنتے ہیں۔ اور بہت سے لوازمات سے خدا ہمارے دسترخوان کو بھر دیتا ہے۔ ہمارے محلے میں عصر سے مغرب تک افراتفری رہتی ہے۔ بچے بوڑھے جوان سب خوشی خوشی کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق کام انجام دیتا ہے۔ افطار کے وقت بہت اچھا لگتا ہے۔ کافی رونق دیکھنے کو ملتی ہے۔
سمیہ معتضد (اعظم گڑھ، یوپی)
ماحول خوشنما رہتا ہے


ہم جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں رمضان کی خاص دھوم رہتی ہے۔ سبھی اس پاس کے رہنے والے ایک دوسرے کو افطاری تقسیم کرتے ہیں۔ یوں تو سب کے الگ الگ پکوان ہوتے ہیں مگر ہمارے علاقے کی خاص ڈش ہے بریانی اور کھجور۔ عصر کی نماز بعد سب باہر جمع ہونے لگتے ہیں، ایک دوسرے کا حال دریافت کرتے ہیں اور رمضان سے متعلق بات چیت کرتے ہیں۔ مسجد میں افطار پہنچنا شروع ہوجاتی ہے۔ ہمارے محلے میں روزہ افطار کرایا جاتا ہے جس میں سبھی شامل ہوتے ہیں اور بڑا ہی خوشنما ماحول ہوتا ہے۔
ہما انصاری (مولوی گنج لکھنو)
شاورما کی ڈیمانڈ زیادہ ہے


ہمارے علاقے وسئی میں مانک پور مسجد کا علاقہ سال بھر کھاؤ گلی بنا رہتا ہے۔ رمضان میں تو پوری رات چہل پہل لگی رہتی ہے۔ ویسے تو ہر چیز یہاں مل جاتی ہے کھانے کو لیکن تراویح کے بعد زیادہ تر لوگ شاورما کھانے یہاں آتے ہیں پوری فیملی کے ساتھ۔ یہ ڈش بہت لذیذ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں کافی مشہور ہے۔ شاورما کی کئی قسم کے ملنے کی وجہ سے بھی لوگ یہاں کھانے کے لئے آتے ہیں۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
چنے کی گھنگنی لازمی ہوتی ہے
یوں تو بہت سی ڈشیں ہیں جو کہ خاص ہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ چنے کی گھنگنی جو ہر گھر میں بنتی ہے اورخاصی اہمیت رکھتی ہے۔ اب نئی نسل تو اس سے گریز کرنے لگی ہے۔ یو ٹیوب کی مدد سے نت نئی ڈشیں بنانے کا شوق پروان چڑھنے لگا ہے۔ افطار کے وقت کا ماحول اتنا پر کیف اور گہماگہمی والا ہوتا ہے کہ پورے دن کے روزے کے بعد پیاس وغیرہ کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ لوگ برف والے سے ضرورت کے مطابق برف لے رہے ہیں۔ کوئی بازار جا رہا ہے تو بہت سے لوگوں کا پھل، جلیبی، لیموں وغیرہ لانے کا ذمہ لیا ہے۔ عصر بعد تو لڑکے مسواک منہ میں دبائے پھرتے ہیں اور لوگوں کے گھروں میں بھی بھیجتے ہیں۔ روز کسی نہ کسی کے یہاں افطار کی دعوت ہوتی ہے۔ چھوٹے بچوں سے لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں افطاری بھجواتے ہیں۔ سب ملا کر بڑا ہی پر رونق منظر ہوتا ہے۔
ایس خان (اعظم گڑھ، یوپی)
دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے
رمضان المبارک میں ہمارے شہر (مالیگاؤں) میں بہت رونق ہوتی ہے۔ اکثر لوگ راتوں میں خریدی کرنے نکلتے ہیں۔ سڑکوں پر خوب چہل پہل ہوتی ہے۔ افطاری کیلئے یہاں خاص طور پر سموسہ پکوڑے بناتے ہیں اور ساتھ میں چنا بناتے ہیں۔ ہر گھر میں پاپڑ ضرور ملے گا۔ اس کے علاوہ سالن، ترکاری، بریانی، پلاؤ وغیرہ گھروں میں بنائے جاتے ہیں۔ اکثر گھروں میں سہیلیوں کو افطاری کی دعوت دی جاتی ہے۔ دوسروں کے گروپ کسی گارڈن یا ہوٹلوں کا رخ کرتے ہیں۔ کچھ جماعتیں افطار پارٹی کا اہتمام کرتی ہیں۔ اس طرح شہر کا منظر نامہ اس مہینے میں بدلا ہوا ہوتا ہے۔ سبھی لوگ روزہ کا اہتمام کرتے ہیں اور افطاری سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سب مل کر افطاری کی تیاری کرتےہیں پھر دعا مانگتے ہیں۔ اجتماعی و انفرادی دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں تمام اسلامی ارکان کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے نیک اعمال کو قبول فرمائے (آمین)۔ 
فاطمہ عابد حسین (مالیگاؤں، ناسک)

شام کے وقت بہت رونق ہوتی ہے


ہمارے یہاں کا خاص پکوان شاہی چھولے ہے۔ اسے کافی پسند کیا جاتا ہے۔ آج کل ہمارے آس پاس بہت ہی روح افروز اور پُر رونق ماحول ہے۔ عید کی آمد آمد ہے۔ ہر وقت سڑک پر لوگوں اور عورتوں کا ہجوم خریداری کرتے نظر آتا ہے۔ شام کے وقت بہت رونق ہو جاتی ہے۔ نمازیں غول میں نظر آتے ہیں اور افطاری کا سامان لئے ہوئے اپنے گھر کی طرف جاتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے گھر کے پاس مسجد ہے۔ شام کو افطار کے وقت مسافر، نمازی، آس پاس کے لوگ اور دکاندار روزہ کھولنے کے لئے آجاتے ہیں۔ سب لوگ مل کر روزہ افطار کرتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔ بہت ہی دل افروز منظر ہوتا ہے۔
گل شاہانہ صدیقی (امین آباد، لکھنؤ)

اگلے ہفتے کا عنوان: عید پر پوری دنیا کیلئے میرا پیغام۔ 
اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK