گوگل کے سی ای او سندر پچائی کی مختلف تقاریر سے اہم اقتباسات، جن میں نوجوانوں کے لئے بہت ہی کارآمد مشورے اور ترغیبی پیغامات چھپے ہوئے ہیں
EPAPER
Updated: August 09, 2023, 1:06 PM IST | Mumbai
گوگل کے سی ای او سندر پچائی کی مختلف تقاریر سے اہم اقتباسات، جن میں نوجوانوں کے لئے بہت ہی کارآمد مشورے اور ترغیبی پیغامات چھپے ہوئے ہیں
ہندوستان کی یہ بھی ایک بڑی خوبی ہے کہ یہاں تعلیم کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔ والدین کی اکثریت بچوں کے تئیں فکرمند رہتی ہے، یقیناً یہ باتیں اچھی ہیں ۔ میں اپنے تجربے کے حوالے سے یہاں کی پڑھائی کی بات کروں تو میرا زیادہ وقت نصابی کتابوں میں ہی گزرا، نصاب سے ہٹ کر زیادہ کچھ سیکھنے پر توجہ ہی نہیں تھی۔ حالانکہ اب مجھے لگتا ہے کہ تعلیم کو بھی دیگر چیزوں کی طرح تبدیل ہونا چاہئے۔ تاکہ طلبہ کو علم کے ساتھ ساتھ ’ اصل دنیا‘کا بھی علم ہوتا رہے۔ یہ بے حد ضروری ہے ۔ طلبہ کو چاہئے کہ وہ مختلف چیزوں کو آزمائیں ۔ جوکھم اٹھانا سیکھیں ۔ کریئر کے لئے اپنی پسند اور شوق کو دھیان میں رکھیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیمی نظام میں بڑا پریشر ہوتا ہے، طلبہ کو طے شدہ ڈگر پرہی چلنا پڑتا ہے ۔ مجھے یہ جان کر شدید حیرت ہوئی کہ ہندوستان میں آٹھویں سے دسویں جماعت کے دوران سے ہی بچے آئی آئی ٹی میں داخلوں کی تیاری میں لگ جاتے ہیں ۔
بہرحال ، طلبہ کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے لئے زندگی کا ایک لمبا سفر ہے ، اس میں بہت سی رکاوٹیں آئیں گی ، وہ وقت بھی آئے گا جب آپ دوسروں کے مقابلے پچھڑسکتے ہیں ، لیکن ان باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔میری نوعمری کے دنوں کی بات مجھے یاد ہے، جب لوگ کہتے تھے، اسے فلاں کالج میں کہاں داخلہ ملے گا،یہ وہ کام نہیں کرپائے گا، اس کے لئے اب کوئی راستہ نہیں بچا ہے ۔تو دوستو، جان لیجئے کہ زندگی ان سب باتوں سے الگ ہوتی ہے ۔ آپ کو اپنے دل میں امید جگائے رکھنی ہے ۔ خواب دیکھتے رہنے چاہئے اور انہیں حقیقت میں بدلنے کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ آئی آئی ٹی میں داخلہ ہوجانا بڑی بات ہے، لیکن ایسے کئی عظیم شخصیات ہیں وہ یہاں سے نہیں پڑھے اور زندگی میں بہت کامیاب ہوئے اور انہوں نے اپنے فن اور میدان میں کمال کرکے دکھایا۔اس لئے میں کہتا ہوں کہ نامور اور باوقار اداروں میں داخلہ کامیابی کا ضامن نہیں ہوتا ہے، یہاں داخلہ مل جانا یقیناً بڑی بات ہے ، لیکن یہی سب کچھ نہیں ہے ۔میں طلبہ سے یہی کہتا ہوں کہ زندگی ایک طویل اور مزیدار سفر ہے، اس کا لطف اٹھاتے ہوئے آپ کو آگے بڑھنا چاہئے۔ یہاں کی بات کروں تو لوگ آئی آئی ٹی پہنچتے ہی آئی آئی ایم کے سپنے دیکھنے لگتے ہیں ۔ وہاں امریکہ میں اسٹینفورڈ اور دیگر اداروں میں طلبہ گریجویشن اور ماسٹرز کے فائنل ایئر تک ’میجرز‘کا انتخاب نہیں کرتے۔ کیونکہ وہ تب تک مختلف مضامین کا مطالعہ کرتے ہیں ، الگ الگ چیزیں سیکھتے ہیں ۔ اس کے ذریعہ وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کا حقیقی میلان یا رجحان کس جانب ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ اچھی باتیں جنہیں یہاں بھی اپنانا چاہئے۔ میری نظر میں کریٹیویٹی ، تجربہ، ہمہ جہت صلاحیتیں اتنی ہی ضروری ہیں جتنی پڑھائی ۔ اگرمیں گریجویٹ اسکول میں صرف پڑھائی پر ہی فوکس کرتا تو میں پی ایچ ڈی ہوجاتا، میرے والدین بھی خوش ہوتے کہ بیٹے نے اتنی پڑھائی کرلی ۔ ایسا ہوتا تو آج مجھے ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے کا موقع نہیں ملتا اور میں یوں بطور گوگل سی ای اوآپ کے روبرو نہیں ہوتا۔ وہاں سے یہاں تک مجھے جو چیز کھینچ لائی ہے وہ ہے ٹیکنالوجی سے میرا بے حد لگاؤ اورزیادہ سے زیادہ سیکھنے اور خود کو بہتر بنانے کی چاہت ۔ اسلئے میں آپ سے بھی کہوں گا کہ خود کو پہچانئے، جن چیزوں میں آپ کو دلچسپی ہے اس میں آگے بڑھئے،پھر یہ نہ دیکھیں کہ آپ کے والدین آپ کو کیا بنانا چاہتے ہیں ، آپ کے دوست کیا کررہے ہیں ، یا پھر سماج آپ سے کیا توقع رکھتا ہے۔
میری نظر میں لوگوں میں بہتری اور ترقی کے لئے جوکھم اٹھانے کے جذبے کو زیادہ سے زیادہ فروٖغ دینا چاہئے، اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چائے۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ تب تک مختلف علوم اور مہارتیں سیکھنے کی کوشش کریں جب تک انہیں یہ پتہ نہیں چل جاتا کہ کس مخصوص کام میں انہیں دلچسپی ہے۔ کئی سالوں کا میرا تجربہ ہے کہ آپ کو مواقع ڈھونڈنا نہیں بنانا پڑتے ہیں ۔ اسلئے اپنے پسندیدہ میدان میں کچھ ہٹ کر کام کرنے کا جذبہ اپنائیں ، جوکھم اٹھائیں ۔ جو کام آپ کرنا پسند کرتے ہیں اس میں کریئر کا ہدف بنائیں ۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو پہلی کوشش میں ناکامی ہاتھ آئے۔ لیکن آپ کو دوبارہ کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیں اپنا ہدف اور مقصد ہمیشہ اونچا رکھنا چاہئے۔ اس کے حصول میں کامیابی پانے تک کئی بار ناکامیوں کا سامنا ہوگا۔ اس لئے آپ کو گھبرانا نہیں ہے ۔ لیری نے کہا تھا کہ ’’اگر آپ کا کوئی ہدف ہے ، اور وہ بہت مشکل ہے ،تویادرکھئے کہ اس میں آپ کے سامنے کوئی نہیں ہے ، اگر آپ ناکام بھی ہوگئے تو اس پورے عمل کے دوران آپ بہت کچھ سیکھیں گے۔ یہی وہ فلسفہ ہے جس نے ہم سب کو گوگل کو آگےلے جانے میں مدد دی۔ سلیکان ویلی کی ایک بات بتاؤں کہ یہاں اسٹارٹ اپ شروع کرنے والے جانتے ہیں کہ ان کیلئے راہ آسان نہیں ، اسی لئے وہ ناکامی کو اپنے لئے تمغہ امتیاز سمجھتے ہیں ۔ وہ ہار نہیں مانتے، کامیابی ملنے تک کوشش جاری رکھتے ہیں ۔ یہ جذبہ اورعمیق نظری بہت ضروری ہے ۔ ہندوستان میں ، میں کئی اسٹارٹ اپ کرنے والے افراد سے ملا، یقین جانئے صلاحیت کے معاملے میں ، میں نے انہیں اپنے جیسا ہی پایا۔ ہمارے ملک میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے ، آپ کسی بھی سمت چلے جائیں ، کسی نہ کسی ٹی اسٹال پر آپ کو ایک انٹرپرینیور نظر آجائے گا، جو اپنے لئے مواقع ڈھونڈنے کی نظر رکھتا ہے ، جس نے روایتی کاروبارکو ایک نیا طرز دے کر اپنی پہچان بنائی۔ ہندوستان کی بات کروں تو یہاں بے پناہ صلاحیتیں ، مسئلہ یہ ہے کہ ابھی یہاں مارکیٹ ڈیولپ ہورہا ہے ، ملک دھیرے دھیرے ترقی کررہا ہے ، ٹرینڈ لائن ہمارے حق میں ہے ، مجھے لگتا ہے کہ آئندہ پانچ سے ۱۰؍ سال میں ہندوستان میں بڑی بڑی سافٹ ویئر کمپنیاں بنیں گی اور یہ اپنا دائرہ دنیا بھر میں بڑھائیں گی۔ یہ یقین جانئے سب کچھ معمول کی بات بن جائے گی ۔ ٹیسلا، گوگل ، اسپاٹی فائی اور اس جیسی متعدد کمپنیاں ہندوستان کی ہوں گی جو آپ جیسے نوجوانوں کے انقلابی خیالات کی اُپج ہوں گی ۔
اپنے خواب کو حقیقت بنانے کے لئے کیا کرنا پڑتا ہے؟ اس سوال کا جواب مجھ سے پوچھیں تو میں کہوں گا کہ بالکل آسان ہے ۔اس کے لئے آپ کو گھنٹوں وقت دینا ہوگا، گھر سے اپنے عزیزوں سے دور ہونا ہوگا،انکار اور مستردی کو سہنا ہوگا۔ آخر میں تھامس ایڈیسن کی وہ بات کہوں گا جس میں انٹرپرینیور کے لئے بڑا پیغام ہے، وہ اپنے تجربے میں ہزار بار ناکام ہوئے تھے، لیکن انہوں نے اسے اس طرح کہا تھا کہ : میں ہزار بار ناکام نہیں ہوا ، بلکہ ۹۹۹؍ بار ایسی کوششیں کیں جن کا نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔‘‘
(ترجمہ وتلخیص: انقلاب ڈیسک)