Inquilab Logo

بچے، رشتہ داروں سے کیوں کترانے لگے ہیں؟

Updated: July 02, 2020, 11:22 AM IST | Usha Gupta

کیا کیوں، کیسے کب، ایسا مت کرو، یہ کرو.... کچھ ایسے سوال ہوتے ہیں، جو رشتے دار بچوں سے خوب کرتے ہیں۔ کئی بار ان وجوہ سے بھی بچے رشتے داروں سے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیںکہ آج کے بچوں کے رشتہ داروں سےنہ گھلنے ملنے کے اور کیا اسباب ہیں؟

Family - Pic : INN
فیملی ۔ تصویر : آئی این این

ایک وقت تھا جب بچوں میں بڑی اُمنگ اور خوشی ہوتی تھی کہ رشتہ داروں کے گھر جانا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ بہت کچھ بدلتا چلا گیا۔ اب چہروں پر مسکراہٹ نظر آتی ہے مگر دل میں اتنی خوشی نہیں ہوتی۔ کیا بچوں کی سوچ بدل گئی ہے؟ کیا بچوں کو رشتہ دار کھٹکنے لگے ہیں؟ یا پھر ان کا دائرہ محدود ہوگیا ہے؟ ایسے تمام سوالات ہیں جن کے جواب تلاش کرنا انتہائی ضروری ہے۔
بچوں کی نفسیات
 سب سے پہلے ہمیں بچوں کی نفسیات کو سمجھنا ہوگا۔ آخر بچہ کیوں رشتہ داروں کو پسند نہیں کر رہا؟ ان سے گھل مل نہیں رہا.... بات چیت نہیں کر رہا.... انہیں نظرانداز کرتا رہتا ہے.... ماہر نفسیات رینو گرجا کے مطابق، بچے معصوم ہوتے ہیں لیکن ماضی میں ان کے ساتھ کچھ ایسا ہوا ہوتا ہے جس کا اثر ان کے رویہ پر نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ ہوسکتا ہے بچے کو کچھ رشتہ داروں کا برتاؤ ناپسند ہو۔ ان کا ضرورت سے زیادہ سوال کرنا، بچے میں خامیاں نکالنا اسے ناگوار گزرتا ہو۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ رشتہ دار بچوں کا موازنہ کرتے ہو کہ فلاں رشتہ دار کا بیٹا دیکھو پڑھنے میں کتنا ہوشیار ہے، اوّل آتا ہے.... تمہارا تو پڑھائی کی جانب دھیان ہی نہیں ہے.... تمہاری یہ عادت اچھی نہیں ہے.... ہر وقت فون پر رہتے ہو.... اس طرح کی باتیں کرنے والے رشتہ داروں سے یقیناً بچے دور بھاگتے ہیں، کیونکہ ان کو دیکھتے ہی بچوں کا دل کہہ اٹھتا ہے، لو آگئی مصیبت.... پھر وہ کسی ناپسند واقعہ کے ہونے یا اپنا موڈ خراب کرنے سے بہتر یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے سامنے ہی نہ جائیں۔
بچوں کا مزاج
ز کچھ بچے شرمیلے ہوتے ہیں۔ وہ بہت کم ہی کسی سے ملتے جلتے ہیں یا ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
ز اس کے برعکس منہ پھٹ اور حاضر جواب بچے بھی ہوتے ہیں، جو اپنی دنیا میں مست رہنا پسند کرتے ہیں۔ انہیں اپنے سوا کسی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔
ز سنجیدہ بچوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ اپنے والدین سے بھی زیادہ نہیں بول پاتے تو بھلا رشتہ داروں سے بات کرنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔
ز ’پڑھاکو‘ مزاج کے بچوں کو تو رشتہ دار ’ویلن‘ کی طرح لگتے ہیں۔ وہ امتحان ہو یا پھر دیگر ضروری پروجیکٹس، مقابلہ جاتی امتحان وغیرہ ان سب میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ انہیں اس میں کسی کی بھی دخل اندازی یا پھر رکاوٹ پسند نہیں آتی اور اس میں رشتہ دار ان کی ٹاپ لسٹ میں ہوتے ہیں۔
ز ضدی مزاج کے بچے بھی رشتہ داروں کو بہت کم ہی اہمیت دیتے ہیں۔ وہ صرف اپنی ضرورت سے مطلب رکھتے ہیں۔
اسمارٹ فون کے عادی
 دراصل اس وقت وہ اپنے گیم میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ اس کے آگے انہیں کوئی نظر نہیں آتا۔ وہ زیادہ تر ایک ہی جگہ پر بیٹھ کر بس ان میں مگن رہتے ہیں۔ تب انہیں کسی کی بھی دخل اندازی پسند نہیں آتی، پھر چاہے وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ ویڈیو گیمز اور موبائل فون کی عادتوں نے بچوں کو رشتوں سے دور کر دیا ہے۔
والدین بھی ذمہ دار
ز اکثر گھر پر آئے ہوئے کچھ رشتہ داروں کے جانے کے بعد گھر والوں ان سے متعلق طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ یہ رشتہ انہیں پسند نہیں۔ رشتہ داروں سے متعلق منفی باتیں بھی کرتے ہیں۔ ان باتوں سے بچے کے دل و دماغ پر منفی اثر ہوتا ہے اور وہ بھی ان رشتہ داروں کو ناپسند کرنے لگتا ہے۔
ز کئی مرتبہ والدین رشتہ داروں کے سامنے الگ طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں جن میں بناوٹی پن، رسمی اور ڈرامائی زیادہ ہوتا ہے۔ اس سے بھی بچے تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پھر ان کا رویہ بھی بدلتا ہے۔
ز عام طور پر گھر والے رشتہ داروں سے یہ جھوٹ بولتے رہتے ہیں کہ وہ بہت مصروف تھے، اس وجہ سے مل نہیں پائے جبکہ حقیقت ہوتی ہے کہ وہ ان سے بات چیت ہی نہیں کرنا چاہتے، اس لئے مصرفیت کا بہانہ بناتے رہتے ہیں۔ آگے چل کر بچے بھی ان کی اس عادت کو اپنانے لگتے ہیں اور بڑے ہونے پر اسی طرح کا برتاؤ کرنے لگتے ہیں۔
کیا کریں؟
ز بچوں پر کسی طرح کا دباؤ نہ ڈالیں۔ انہیں پیار سے اپنے پن اور رشتے کی اہمیت سمجھائیں۔
ز جس طرح وہ اپنے دوست کو اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں، اسی طرح رشتہ دار کو بھی اپنی زندگی میں جگہ دیں، ان کی اہمیت بچوں کو بتائیں۔
ز بچوں کو مثال کے طور پر یہ وجہ بھی بتائی جاسکتی ہے کہ جس طرح وہ رشتہ داروں سے نہیں ملتے، اسی طرح ہم بھی کسی کے یہاں جاتے ہیں تو ان رشتہ داروں کے بچے میں ایسا ہی برتاؤ کرتے ہیں۔
ز بچے معصوم اور حساس ہوتے ہیں، انہیں پیار سے سبھی پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے سمجھایا جائے تو معاملے کی حقیقت کو بہتر انداز میں سمجھ پاتے ہیں۔
ز وقتاً فوقتاً بچوں کو رشتہ داروں کے یہاں ضرور لے جائیں، جس سے انہیں گھلنے ملنے میں آسانی ہوگی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK