گریٹاتھنبرگ کا جذباتی خطاب، کہا: ’’کوئی آزاد نہیں جب تک فلسطین آزاد نہ ہو‘‘۔غزہ جانے والی امدادی کشتیوں کے بوسعید بندرگاہ پر لنگرانداز ہونے پر استقبال کیلئے لوگ بڑی تعداد میں پہنچے، یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن ، منڈلا منڈیلا سمیت کئی اہم شخصیات بھی موجود رہیں
تیونس میں شاندار استقبال پر برازیلی کارکن تھیاگو اویلا شکریہ ادا کرتے ہوئے، ساتھ میں دیگر کارکنان دیکھے جاسکتے ہیں۔ تصویر: آئی این این
غزہ کیلئے جانیوالا امدادی کشتیوں کا قافلہ’صمود‘اتوار کوتیونس پہنچا ہے۔ اس موقع پر تیونس سمیت مختلف ممالک کے کئی ہزار افراد بندرگاہ پر اس قافلے کے استقبال کیلئے موجود رہے۔ یہاں ۳؍دنوں تک قیام کرنے کے بعدیہ قافلہ تازہ دم ہوکر اپنے مشن کا حتمی پڑاؤ شروع کرے گا۔رپورٹ کے مطابق ۱۰؍ستمبر کو ’گلوبل صمود فلوٹیلا‘ غزہ کیلئے روانہ ہوگا۔ اتوار کو لوگ بڑی تعداد میں تیونس کی بندرگاہ پر بارسلونا سے آنیوالی امدادی کشتیوں کے استقبال کیلئے جمع ہوئے ۔ اس قافلےمیں ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ اور دیگر فلسطینی حامی مہم کار موجود ہیں۔ ان افراد کا مقصد غزہ کی اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑنا ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اتوار کی شب امدادی کشتیوں کے تیونس کی بوسعید بندرگاہ پر لنگرانداز ہونے کے بعد نصف سے زائد سماجی کارکن تیونس شہر میں داخل ہوئے۔ جبکہ نصف تعداد نے نگرانی کیلئےامدادی کشتیوں پر ہی ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ گریٹا تھنبرگ نے کہا، ’’ہم سب جانتے ہیں کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔ پانی کے اس پار کچھ ہی فاصلے پر ایک نسل کشی ہو رہی ہے، اسرائیل کے قتل و غارت سے وسیع پیمانے پر فاقہ کشی جاری ہے۔‘‘ یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن سیدی، بو سعید بندرگاہ پر عالمی صمود فلوٹیلا کا استقبال کرنے والے ہجوم میں شامل تھیں۔ انہوں نے کہا، ’’فلسطینی مقصد آج حکومتوں کے ہاتھ میں نہیں ہے، یہ ہر جگہ کے لوگوں کے دلوں میں ہے۔‘‘ انہوں نے اس کردار کی تعریف کی جو ’’فلسطینی عوام کے ساتھ کسی بھی طرح کی یکجہتی کو روکنے والی ریاستوں کی بزدلی کے سامنے آج لوگوں نے ادا کیا ہے۔‘‘ حسن نے یہ نہیں بتایا کہ جب بدھ کو فلوٹیلا غزہ کیلئے اپنا سفر دوبارہ شروع کرے گا تو آیا وہ اس میں شامل ہوں گی۔
منتظمین نے بتایا کہ اس فلوٹیلا میں شمولیت کی غرض سے تیونس سے کشتیوں پر سوار ہونے کےلئے مختلف ممالک کے۱۳۰؍ سے زائد افراد نےاپنا اندراج کروایا ہے ۔ گلوبل صمود فلوٹیلا خود کو ایک آزاد اور خودمختار تنظیم قرار دیتا ہے جس کا کسی حکومت یا سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ منتظمین نے کہا کہ تیونس سے روانہ ہونے والے فلوٹیلا کو ’تکنیکی اور لاجسٹک وجوہات‘ کی بنا پر پہلے ہی مؤخر کر دیا گیا تھا۔
گریٹا تھنبرگ نے کیا کہا؟
امدادی قافلے کی روح رواں میں سے ایک گریٹا تھنبرگ نےتیونس پہنچنے پر کئے جانے والے خطاب میں غزہ میں نسل کشی میں مغربی طاقتوں کو شریکِ جرم قرار دیا ہے۔ اتوار کی شب تیونس میں عالمی صمود فلوٹیلا کے تحت سیکڑوں دیگر کارکنوں کے ساتھ پہنچنے کے بعد انہوں نے کہا کہ غزہ میں جاری نسل کشی کو وہ حکومتیں، کمپنیاں اور مغربی عہدیدار ممکن بنا رہے ہیں جو اپنے شہریوں کی نمائندگی کرنے کے بجائے اسرائیل کے مفادات کو پورا کر رہے ہیں۔
گریٹا نے ایسی عالمی کمپنیوں اور حکومتوں سے کہا کہ ’’نسل کشی میں اپنی شراکت داری ختم کرواورانسان بنو۔‘‘ تھنبرگ کے یہ الفاظ انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے زبردست نعروں اور تالیوں کے ساتھ سنے گئے جو تیونس میں جمع ہوئے ہیں۔ یہ کارکن آئندہ چند دنوں میں غزہ کا رخ کریں گے تاکہ اسرائیل کی محاصرہ توڑنے کی کوشش کریں۔ اس کے ساتھ ہی تھنبرگ نے یہ بھی کہا کہ عالمی میڈیا فلسطینی صحافیوں کے حق میں کھڑا ہونے میں ناکام رہا ہے جنہیں اسرائیل نشانہ بنا رہا ہے اور قتل کر رہا ہے۔۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک اسرائیل نے محصور غزہ میں ۲۰۰؍سے زیادہ صحافیوں کو قتل کیا ہے۔
گریٹا نے ہزاروں کے مجمع کی طرف دیکھ جذباتی انداز میں کہا کہ ’’کوئی آزاد نہیں جب تک فلسطین آزاد نہ ہو۔‘‘
’’اسرائیلی فوج ہم پر فائرنگ کر سکتی ہے یا کشتیاں ڈبو بھی سکتی ہے‘‘
غزہ کی ناکہ بندی توڑنے اور خطے میں انسانی امداد پہنچانے کیلئے روانہ ہونے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کے ایک بوسنیائی رکن نے خبردار کیا کہ اسرائیل فلوٹیلا کو اپنی منزل تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کر سکتا ہے، یہاں تک کہ اس مقصد کے تحت وہ ان پر گولیاں بھی چلا سکتا ہے۔ بورس وٹلاسل جو سسلی سے روانہ ہونیوالے جہازوں کے فلوٹیلا میں شامل ہوئے، نے سراجیوو میں قائم غزہ موومنٹ کے زیر اہتمام ایک پریس کانفرنس میں آن لائن بات چیت کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ کی صورتحال کے بارے میں یورپ میں عوامی بیداری روز بروز بڑھ رہی ہے اور فلوٹیلا کو دنیا بھر سے حمایت حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اسرائیل ہماری کشتیوں کو روکنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے نہیں لگتا کہ وہ ہمیں گرفتار کریں گے، کیونکہ اس سے اسرائیلی افواج مشکل میں پڑ جائے گی۔ اس وقت ۵۰؍ سے زائد کشتیاں غزہ کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ہمیں اپنے ہدف تک پہنچنے سے روکنے کیلئے اقدامات کریں گے۔‘‘انہوں نے خبردار کیا کہ ’’اسرائیلی فوج فائرنگ کر سکتی ہے یا کشتیوں کو ڈبو بھی سکتی ہے۔ اس صورت میں ہم اپنی منزل پر پہنچنے کے بجائے اپنے دوستوں کو بچانے کی کوشش کریں گے۔‘‘