دنیا بھر سے لاکھوں عازمین، حج کیلئے مکہ مکرمہ پہنچ رہے ہیں۔ ان کے درمیان ۳؍ گھڑ سواروں نے منفرد جگہ بنائی ہے۔ گھڑ سواروں کا یہ گروپ ۷؍ ماہ پہلے اسپین کے شہر اندلس سے مکہ کیلئے مقدس سفر پر روانہ ہوا تھا اور اب یہ مکہ پہنچ گیا ہے
EPAPER
Updated: June 06, 2025, 10:59 AM IST | Makkah
دنیا بھر سے لاکھوں عازمین، حج کیلئے مکہ مکرمہ پہنچ رہے ہیں۔ ان کے درمیان ۳؍ گھڑ سواروں نے منفرد جگہ بنائی ہے۔ گھڑ سواروں کا یہ گروپ ۷؍ ماہ پہلے اسپین کے شہر اندلس سے مکہ کیلئے مقدس سفر پر روانہ ہوا تھا اور اب یہ مکہ پہنچ گیا ہے
دنیا بھر سے لاکھوں عازمین، حج کیلئے مکہ مکرمہ پہنچ رہے ہیں۔ ان کے درمیان ۳؍ گھڑ سواروں نے منفرد جگہ بنائی ہے۔ گھڑ سواروں کا یہ گروپ ۷؍ ماہ پہلے اسپین کے شہر اندلس سے مکہ کیلئے مقدس سفر پر روانہ ہوا تھا اور اب یہ مکہ پہنچ گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اندلس کے مسلمان ۵۰۰؍ سال پہلے تک اسی راستے سے مکہ پہنچتے تھے۔ ان تینوں عازمین حج کے نام ہیں عبدالقادر ہرکاسی ایڈی، طارق روڈریگز اور عبداللہ رافیل ہرنانڈیز منچا۔ ان تینوں نے تقریباً ۷؍ ماہ میں ۶؍ ہزار ۵۰۰؍ کلومیٹر کا سفر طے کیا ہے۔ اس ٹیم نے انسٹاگرام کے ذریعے اپنے اس سفر کو دستاویزی شکل بھی دی ہے۔
ان تینوں کے مکہ پہنچ جانے کے بعد دی نیشنل نے ان سے رابطہ کیا ۔ اسے عبدالقادر ہرکاسی سے اپنے سفر کے متعلق بتایا کہ ’’جب ہم نے سفر شروع کیا تھا تو یہ خواب معلوم ہورہا تھا مگر اب یہ حقیقت بن گیا ہے۔ یقین نہیں آرہا ہے کہ ہم بذریعہ گھوڑے خدا کے گھر پہنچے ہیں۔‘‘ خیال رہے کہ یہ سفر اس لئے بھی غیرمعمولی ہے کہ عبداللہ رافیل ہرنانڈیز جو پہلے غیر مسلم تھے، نے ۳۶؍ سال پہلے منت مانگی تھی کہ اگر وہ ایک مشکل امتحان میں کامیابی حاصل کرلیں گے تو اسلام قبول کریں گے اور گھوڑے پر سوار ہوکر حج پر جائیں گے۔ انہوں نے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور اسپین کے ایک تعلیمی ادارے سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ یہ امتحان ان کے اور ان کے خاندان کیلئے بہت اہم تھا کیونکہ اس کی بنیاد پر انہیں ملازمت ملی اور وہ اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے قابل ہوسکے۔ وہ کہتے ہیں کہ قدیم اندلس کے لوگوں کی روایت تھی کہ وہ اپنی مراد بر آنے کیلئے منت مانگتے تھے۔ عبداللہ کو جب اپنے آبا واجداد کی اس روایت کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے بھی اس طرح کی منفرد منت مانگی۔ کامیابی کے بعد وہ اپنی بات پر قائم رہے اور انہوں نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔باقی صفحہ ۱۲؍پر ملاحظہ کریں