ایڈوکیٹ محمد حیدر متاثرہ طالب علم کو نہیں جانتے مگرسماج کے تئیں ذمہ داری کو محسوس کیا، قانون کا استعمال کیا اور حکام کوجوینائل ایکٹ کے تحت ایف آئی آر پر مجبورکر دیا
EPAPER
Updated: September 21, 2023, 10:18 AM IST | Asim Jalal | Mumbai
ایڈوکیٹ محمد حیدر متاثرہ طالب علم کو نہیں جانتے مگرسماج کے تئیں ذمہ داری کو محسوس کیا، قانون کا استعمال کیا اور حکام کوجوینائل ایکٹ کے تحت ایف آئی آر پر مجبورکر دیا
اتر پردیش کے مظفر نگر میں ۲۴؍ اگست کو ایک طالب علم کو مبینہ طور پراس کی مذہب کی بنیاد پر دیگر طلبہ سے پٹوانے کے معاملے میں قومی سطح پر برہمی کے اظہار کے بعد خاموشی چھا گئی۔ کچھ ذمہ دار شہریوں نے متاثرہ بچے کے اہل خانہ سے ملاقات کی،اس کی مدد کی پیشکش کی، عبوری راحت کا انتظام کیا اور پھر یہ معاملہ قومی حافظے سے محو ہونے لگا مگر لکھنؤ کے وکیل ایڈوکیٹ محمد حیدرجو نہ متاثرہ لڑکے کو جانتے ہیں اور نہ ہی اس سے ملاقات کی، نے بطور وکیل سماج کے تئیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا اور اس معاملے میں قانون کے صحیح اطلاق کی جدوجہد میں جٹ گئے۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں یوپی پولیس کو ملزم ٹیچر ترپتا تیاگی کے خلاف درج کی گئی این سی رپورٹ کو ایف آئی آر میں تبدیل کرنا پڑا۔
ترپتا تیاگی کے خلاف بچوں کیلئے انصاف کو یقینی بنانے والے قانون ’جوینائل جسٹس ایکٹ ‘ کی دفعہ ۷۵؍ کے تحت ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے جس میں ملزم کو ۱۰؍ سال تک کی قید اور ۵؍ لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہوسکتاہے۔ انقلاب سے گفتگو کے دوران ایڈوکیٹ محمد حیدر نے بتایا کہ وہ ذاتی طور پر مثاثرہ لڑکے کو نہیں جانتے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’اس طرح کے معاملے میں لوگوں کی ہم سے امید ہوتی ہے کہ کچھ نہ کچھ کریں گے۔اسی مقصد سے کسی نے مجھے ویڈیو بھیجا تھا۔ ویڈیو دیکھا تو اس میں ٹیچر کے خلاف کئی دفعات کے تحت معاملے بنتے نظر آئے۔ اس پر حملے کیلئے اُکسانے ، دھمکی اور مذہبی منافرت جیسے الزامات عائد ہوسکتے تھے۔‘‘
انہوں نےبتایا کہ ’’ اسی بنیاد پر میں نے ایک لیٹر تیار کیا اور مظفر نگرکے ایس ایس پی سنجیو سمن کو بھیجا جس کے بعد ان کی جانب سے مثبت جواب ملا ہے۔ ‘‘انہوں نے ایس ایس پی کی جانب سے ملنے والے مکتوب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’’ملزم ٹیچر کے خلاف جو این سی رپورٹ درج کی گئی تھی اسے جوینائل جسٹس ایکٹ کے سیکشن ۷۵؍ کے تحت ایف آئی آر میں تبدیل کردیاگیاہے۔‘‘ انہوں نے اسے بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے نشاندہی کی کہ این سی میں تفتیشی افسر کیلئے کسی بھی طرح کی کارروائی سے قبل مجسٹریٹ کی اجازت لینا ضروری ہے جبکہ ایف آئی آر کے بعد وہ خود کارروائی کا اہل ہوتا ہے۔ ایڈوکیٹ حیدر نے نمائندہ انقلاب سے گفتگو کے دوران بتایا کہ ابھی وہ مطمئن نہیں ہیں کیوں اس معاملے میں ’ہیٹ اسپیچ‘ (نفرت انگیزی)، دھمکی اور فرقہ وارانہ منافرت جیسی کئی اور دفعات کے تحت معاملہ بنتاہے۔ انہوں نےبتایا کہ ’’آج(بدھ کی) شام کو ہی میں ایس ایس پی کو پھر مکتوب بھیجنے والا ہوں کہ ملزمہ کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ ۵۰۶ ، ۵۰۴، ۱۱۴، ۱۵۳؍ اے، ۲۹۵؍اے، ۲۹۸؍ اور ۳۲۳؍ جیسی دفعات کا بھی اطلاق ہونا چاہئے۔ ‘‘ وہ امید ہیں کہ مزید دفعات عائد ہوں گی۔اس سلسلے میں ایک لیٹر پٹیشن وہ سپریم کورٹ بھی روانہ کرچکے ہیں۔
لکھنؤ کے ممتاز وکیلوں میں شمار ہونےو الے محمد حیدر کے مطابق’’یہ نفرت انگیزی کا معاملہ بھی ہے جس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کافی سخت ہے اور ریاستوں کو ہدایت دے چکاہےکہ اگر کوئی شکایت کنندہ نہ ہو تب بھی کیس درج کیا جائے۔ ‘‘ انہوں نے امید ظاہر کی کہ جس طرح ایس ایس پی نے جوینائل جسٹس ایکٹ کے تحت کیس درج کروایا ہے اسی طرح دیگر دفعات کااطلاق بھی ہوگا۔ ایڈوکیٹ حیدر حالانکہ کارپوریٹ وکیل ہیں مگر بطور وکیل سماج کے تئیں اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہیں اور اکثرعوام کے حقوق کی لڑائی کو فیس پر ترجیح دیتے ہیں۔ انقلاب سے گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ ’’اکثرلوگ قانونی لڑائی پر آنے والے خرچ کی وجہ سے انصاف حاصل نہیں کر پاتے اس لئے ہم لو کاسٹ لٹی گیشن سینٹر کے قیام پر کام کر رہے ہیں۔ ‘‘