ناگپور کے ۸؍ نوجوانوں کو ۲۰۰۶ء میں ممنوعہ تنظیم سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا مگر پولیس اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی
EPAPER
Updated: August 17, 2025, 9:48 AM IST | Nagpur
ناگپور کے ۸؍ نوجوانوں کو ۲۰۰۶ء میں ممنوعہ تنظیم سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا مگر پولیس اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی
ناگپور کی ایک عدالت نے تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی)، جس پر ۲۰۰۱ء میں پابندی لگادی گئی تھی، سے تعلق کے الزامات میں گرفتاری کے ۱۸؍ سال بعد ۸؍ افراد کو ثبوت کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے بری کردیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ، ملزمین کی تنظیم کی مجلسوں میں شرکت، پروپیگنڈا یا مالی معاونت میں شمولیت کا کوئی بھی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جوڈیشل مجسٹریٹ اے کے بنکر نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ استغاثہ ملزمین اور سیمی کے درمیان کوئی تعلق قائم نہیں کر پایا۔
جن افراد کو بری کیا گیا ہے ان میں شکیل وارثی، شاکر احمد ناصر احمد، محمد ریحان خان، ضیاء الرحمٰن محبوب خان، وقار بیگ یوسف بیگ، امتیاز احمد نثار احمد، محمد ابرار عارف محمد قاسم اور احمد شیخ شامل ہیں ۔ ان تمام کو ۲۰۰۶ء میںیو اے پی اےکی دفعہ ۱۰ اور ۱۳ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے وقت ان میں سے زیادہ تر اپنے عمر کی ۳۰؍ کی دہائی میں تھے اور ناگپور کے رہائشی تھے۔ پولیس نے الزام لگایا تھا کہ انہوں نے خفیہ میٹنگیں منعقد کیں، ممنوعہ تنظیم سیمی سے متعلق پمفلٹ تقسیم کئے اور کالعدم لٹریچر رکھا ہوا تھا۔
ثبوت پیش کرنے میں پولیس ناکامت
تا ہم، مقدمے کی سماعت کے دوران پولیس نے ”خفیہ معلومات“ کا کوئی دستاویزی ریکارڈ پیش نہیں کیا جس کی بنیاد پر اس نے ملزمین کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ملزمین کے گھروں سے مبینہ طور پر برآمد ہونے والا مجرمانہ مواد بھی عدالت میں ثابت نہیں کیا جا سکا۔ پولیس کی طرف سے پیش کئے گئے آزاد گواہوں نے الزامات کی تصدیق نہیں کی جس سے الزامات کی حمایت کیلئے صرف پولیس کی گواہیاں رہ گئیں۔عدالت نے زور دیا کہ محض تحریری مواد رکھنا، اگر اس کے پیچھے کوئی ارادہ یا فعال شرکت کا ثبوت نہ ہو، تو اسے یو اے پی اے کے تحت جرم نہیں قرار دیا جاسکتا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ”اگر استغاثہ کے تمام گواہوں کی گواہیوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو کسی بھی گواہ نے مذکورہ بالا جرم کو ثابت کرنے والے ایسے الزامات یا حقائق کے بارے میں ایک بھی لفظ نہیں کہا ہے۔“
بے گناہی کے باوجود قید وبند کی صعوبت
عدالت کے اس فیصلے نے بے گناہی کے باوجود طویل مدت تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دینے کے ایک اور معاملے کو اجاگر کیا جو ملک میں بار بار سامنے آ ر ہے ہیں۔ مسلم نوجوانوں کو انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین کے تحت کسی بھی وقت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ برسوں تک قید وبند کی صعوبت برداشت کرنے کے بعد انہیں عدالت ناکافی شواہد کی بنیاد پر رہا کرنے کا حکم سنادیتی ہے۔ ۲۰۲۱ء میں سورت کی ایک عدالت نے بھی اسی طرح کے ایک معاملے میں ۲۰۰۱ء میں مبینہ طور پر سیمی کی میٹنگ میں حصہ لینے کی پاداش میںگرفتار کئے گئے ۱۲۷ افراد میں سے ۱۲۲ کو بری کر دیا تھا۔ ان کے خلاف غیر قانونی سرگرمی کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔ حال ہی میں ۲۰۰۶ء کے ٹرین بم دھماکوں کے ملزمین کو بھی رہا کیا گیا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے طویل مقدمات ملزمین کی زندگیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں یہاں تک کہ جب انہیں بری کر دیا جائے۔