مقدمے کی سماعت کے دوران پولیس نے ”خفیہ معلومات“ کا کوئی دستاویزی ریکارڈ پیش نہیں کیا جس کی بنیاد پر اس نے ملزمین کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
EPAPER
Updated: August 16, 2025, 5:02 PM IST | Nagpur
مقدمے کی سماعت کے دوران پولیس نے ”خفیہ معلومات“ کا کوئی دستاویزی ریکارڈ پیش نہیں کیا جس کی بنیاد پر اس نے ملزمین کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
ناگپور کی ایک عدالت نے تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی)، جس پر ۲۰۰۱ء میں پابندی لگادی گئی تھی، سے تعلق کے الزامات میں گرفتاری کے ۱۸؍ سال بعد ۸؍ افراد کو ثبوت کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے بری کردیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ، ملزمین کی تنظیم کی مجلسوں میں شرکت، پروپیگنڈا یا مالی معاونت میں شمولیت کا کوئی بھی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جوڈیشل مجسٹریٹ اے کے بنکر نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ استغاثہ ملزمین اور سیمی کے درمیان کوئی تعلق قائم نہیں کر پایا۔
جن افراد کو بری کیا گیا ہے ان میں شکیل وارثی، شاکر احمد ناصر احمد، محمد ریحان اتلہ خان، ضیاء الرحمٰن محبوب خان، وقار بیگ یوسف بیگ، امتیاز احمد نثار احمد، محمد ابرار عارف محمد قاسم اور احمد شیخ شامل ہیں جنہیں ۲۰۰۶ء میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعہ ۱۰ اور ۱۳ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے وقت ان میں سے زیادہ تر ۳۰ کی دہائی میں تھے اور ناگپور کے رہائشی تھے۔ پولیس نے الزام لگایا تھا کہ انہوں نے خفیہ میٹنگیں منعقد کیں، سیمے سے متعلق پمفلٹ تقسیم کئے اور کالعدم لٹریچر رکھا ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: ریفارم کا وعدہ ،آر ایس ایس کی ستائش، ’’دراندازوں‘ ‘کو انتباہ
ثبوت پیش کرنے میں پولیس ناکام
تاہم، مقدمے کی سماعت کے دوران پولیس نے ”خفیہ معلومات“ کا کوئی دستاویزی ریکارڈ پیش نہیں کیا جس کی بنیاد پر اس نے ملزمین کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ملزمین کے گھروں سے مبینہ طور پر برآمد ہونے والا مجرمانہ مواد بھی عدالت میں ثابت نہیں کیا جا سکا۔ پولیس کی طرف سے پیش کئے گئے آزاد گواہوں نے الزامات کی تصدیق نہیں کی جس سے الزامات کی حمایت کیلئے صرف پولیس کی گواہیاں رہ گئیں۔
عدالت نے زور دیا کہ محض تحریری مواد رکھنا، اگر اس کے پیچھے کوئی ارادہ یا فعال شرکت کا ثبوت نہ ہو، تو اسے یو اے پی اے کے تحت جرم نہیں قرار دیا جاسکتا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ”اگر استغاثہ کے تمام گواہوں کی گواہیوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو کسی بھی گواہ نے مذکورہ بالا جرم کو ثابت کرنے والے ایسے الزامات یا حقائق کے بارے میں ایک بھی لفظ نہیں کہا ہے۔“
بے گناہی کے باوجود طویل مقدمات
یہ مقدمہ ملک میں بار بار سامنے آنے والے طرز عمل کو نمایاں کرتا ہے جہاں نوجوان مسلم مردوں کو سخت انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے لیکن برسوں بعد عدالتوں میں ناکافی شواہد کی بنیاد پر رہا کر دیا جاتا ہے۔ ۲۰۲۱ء میں سورت کی ایک عدالت نے بھی اسی طرح کے ایک معاملے میں ۲۰۰۱ء میں مبینہ سیمی کی میٹنگ کے سلسلے میں گرفتار کئے گئے ۱۲۷ افراد میں سے ۱۲۲ کو بری کر دیا تھا جب ان کے خلاف غیر قانونی سرگرمی کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے طویل مقدمات ملزمین کی زندگیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں یہاں تک کہ جب انہیں بری کر دیا جائے۔