Inquilab Logo

احمدنگر کے ادِک کدم نے ۱۹؍ سال کی عمر میں کشمیر کا رُخ کیا اور پھر خود کو وہیں کیلئے وقف کردیا

Updated: March 06, 2023, 1:51 AM IST | saadat khan | Mumbai

 تشدد اور جنگجوئیت کے سبب یتیم اور بے سہارا ہوجانے والی بچیوں کیلئے ’بسیرۂ تبسم‘ کے نام سے یتیم خانہ قائم کیا، ۷۰۰؍ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی اور کم وبیش ۲۵۰؍ لڑکیوں کی شادی کی ذمہ داری ادا کی، ان کا بارڈلیس ورلڈ فائونڈیشن اب بھی ۳۳۵؍ لڑکیوں کی کفالت کررہاہے

Kashmiri students associated with BFW at the Bandra terminus at the time of their return.
بی ایف ڈبلیو سے وابستہ کشمیری طالبات واپسی کے وقت باندرہ ٹرمنس پر ۔(تصویر: انقلاب)

 کشمیر میں جنگجوئیت اور تشدد کی بنا پر    یتیم ہوجانے والی ۴۰؍ لڑکیوں  نے گزشتہ دنوں  مہاراشٹر کی تعلیمی سیر کی۔ان کی اس  سیر کا انتظام مہاراشٹر کے ہی  ایک نوجوان  ادک کدم کی تنظیم ’بارڈر لیس ورلڈ  فاؤنڈیشن‘‘  نے  کیا۔ ۱۹؍ سال کی عمر میں جب نوجوان مستقبل کے سپنے بُن رہے ہو تے ہیں، ادِک کدم نے کشمیر کے حالات کو سمجھنے کیلئے وہاں کا رُخ کیا اور پھر خود کو وہیں کیلئے وقف کردیا۔ یہ سمجھنے کیلئے کہ  ایسے دورمیں جب بُرے وقت میں اپنے بھی  ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، ادک کدم  نے کشمیر جیسے تشدد زدہ علاقے میں جاکریتیم ہوجانے والی لڑکیوں کیلئے کام کرنے کا تہیہ کیوں کر کیا، انقلاب نے ادک کدم  سے گفتگو کی۔اس کے ساتھ ہی ان لڑکیوں  سے بھی ملاقات کی جو مہاراشٹر کے دورہ پر آئی تھیں۔  
 مہاراشٹر کا دورہ کرنے والی کشمیری طالبات  کے گروپ میں ۱۰؍تا ۲۰؍سال کی لڑکیاں شامل تھیں۔  بارڈر لیس ورلڈ فاؤنڈیشن(بی ایف ڈبلیو)  جن لڑکیوں کی کفالت کرتا ہےان میں زیادہ تر بچیاں وہ ہیں  جنہوں  نے وادی میں جاری   تشدد میں اپنے والدین یا پھر والد کو کھودیا ہے۔  بی ایف ڈبلیو اب تک ایسی ۷۰۰؍ سے زائد بچیوں کی کفالت کرتے ہوئے ان کو اعلیٰ تعلیم  دلا چکا ہے، ۲۵۰؍  بچیوں کی کفالت اورانہیں تعلیم سے آراستہ کرنے کے بعد ان کی  شادی کی ذمہ  داری ادا کی اور اب بھی   ۳؍ سو سے زائد بچیاں  وادی میں   لڑکیوں  کیلئے بنائے گئے اس کے یتیم خانہ  ’’ بسیرہ ٔ  تبسم‘‘ میں مقیم ہیں۔ 
 ادک کدم  جو  مہاراشٹر کے ضلع احمدنگر  میں   ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے اور  پونے  میں  تعلیم حاصل کی،  بتاتے ہیں کہ  چونکہ وہ  پولیٹکل سائنس کے طالب علم تھے اس لئےکالج کے زمانے میں ہی کشمیر اور آرٹیکل ۳۷۰؍ کے بارےمیں پڑھنے  کے دوران کشمیر  اور اہل کشمیر کے تعلق سے کئی سوالات ذہن میں پیدا ہوئے۔ اپنے اساتذہ سے جب ان سوالات پر گفتگو کی اور کشمیر کو سمجھنے کی کوشش کی  تو انہوں نےکہا کہ ’’سچائی  جاننی ہےتوکشمیر جاکر زمینی حقائق معلوم کریں۔‘‘  ادک کدم کے مطابق اتفاق سے کالج سے ہی انہیں  کشمیر کے تعلیمی سفر کا موقع مل گیا  اور پھر انہوں  نے کشمیر میں جنگجوئیت سے متاثرہ   لوگوں  کیلئے کام کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ان کے مطابق ’’یہ فیصلہ آسان نہیں تھا کیوں کہ ابتداء میں شدید پریشانیوں   کا سامنا کرنا پڑا۔‘

 کدم کےمطابق’’ ۱۹۹۷ءمیں ۱۹؍سال کی عمرمیں پہلی مرتبہ جموں پہنچنے پر کشمیر کی خوبصورتی دیکھ کر محسوس ہواکہ میں کسی اور دنیامیں آگیا ہوں مگر زمینی سچائی یہ تھی کہ لوگ مجھے مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہےتھے۔پورے کشمیر میں سخت سیکوریٹی تھی۔ لوگ اپنے گھرپر ٹھہرانےسے صاف منع کررہےتھے۔  ایسا لگ رہاتھا کہ جس مقصد کیلئے میں وہاں گیاتھا وہ پورانہیں ہوسکے گا۔ اس دوران کالج سے جو دیگر طلبہ آئے تھے وہ ۱۸؍ دنو ںبعدپونے لوٹ گئے،لیکن میںوہیں رک گیا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ڈیڑھ مہینہ بعدایک صحافی سے دوستی ہوگئی جس نے کافی مدد کی اور ادک کیلئے کشمیرمیں اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے پیش رفت کی راہ ہموار ہوئی۔کشمیرکے حالات پر وہ بتاتے ہیںکہ’’ایسا نہیں  ہےکہ کشمیر میں اچھے لوگ نہیں ہیں ۔ ابتدائی دنوں میں  برے تجربوں سے زیادہ مجھے اچھے تجربے ہوئے ۔ جنہوں  نے اچھاسلوک نہیں کیاوہ شاید ان کی اپنی مجبوری کی بنا پر تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ۲۵؍برسوں  سےمیں کشمیر سےوابستہ ہوںاس دوران مجھے کبھی کسی ہوٹل میں قیام کرنے یا کھانےکی نوبت نہیں آئی۔ ‘‘ 
  ادک کدم کے مطابق ’’کشمیر کے حالات کو دیکھنے کے بعد محسوس ہواکہ یہاں کے لوگوںکیلئے کام کرناچاہئے ۔ بالخصوص ان لڑکیوں کیلئے جن کےوالدین نہیں ہیں، یاجن کے والدین دہشت گردانہ حملوں کا شکارہوچکےہیں یا پھرجنگجوئیت کی جانب راغب ہوگئے  ہیں۔‘‘چونکہ کشمیر میں اس طرح کی لڑکیوں کیلئے کوئی ادارہ نہیںتھا اس لئے ۲۰۰۲ءمیں میں نے بارڈر لیس ورلڈ فاؤنڈیشن کی  بنیاد ڈالی ۔ ‘‘ ادک بتاتے ہیں کہ شرو ع میں انہیں کم از کم  ۱۹؍مرتبہ انتہاپسند اُٹھالے گئے کئی بار ایسا لگا کہ اب زندگی کا سفر ختم ہونے والا ہے مگر پھر بچ گئے۔ ان کے مطابق ’’انہوںنے مجھے کیوں چھوڑدیایہ میں بھی نہیں جانتا۔‘‘ کپوارہ میں دہشت گردوں سے اپنی مڈبھیڑ کے تعلق سے وہ بتاتے ہیںکہ ’’ ۱۱؍ دہشت گردوںنے مجھے اور میری ایک خاتون ساتھی کو گھیر لیا تھا ۔ شایدزندگی اسی دن ختم ہوجاتی مگر  جب ہم نے  انہیں اپنا مقصد بتایاتو ان کا جواب تھا کہ آ پ لوگ خداکے راستے پر نکلے ہو۔ آپ خدا کے بندے ہو، آپ کو ماریں گے توخدا کوکیاجواب دیں گے، آپ کوجومارے گا وہ سچا مسلمان نہیں ہوگا۔‘‘اپنے ادارہ  بی ڈبلیو ایف  کے تعلق سے گفتگو میں انہوں  نے بتایاکہ ’’ ہم نے کشمیر کی غریب اور یتیم لڑکیوں کیلئے ’بسیرۂ تبسم ‘  کےنام سے یتیم خانہ قائم کیا ہے۔یہاں جولڑکیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ ا ن میں سے ۷۰؍فیصد کے والد اس  دنیامیں نہیںہیںجبکہ ۴۰؍ تا۴۵؍فیصد ایسی لڑکیاں ہیں جن کے والد اورمتعلقین دہشت گردانہ حملوںکا شکار ہوچکےہیںیا  انتہا پسند ہوگئےہیں۔ ‘‘ ۲۵؍برسوں میں بی ڈبلیو ایف کی مدد سے تقریباً ۷۰۰؍لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرچکی ہیں جبکہ ۲۵۰؍لڑکیوںکی شادی کرائی گئی۔  
   مہاراشٹر کے ۱۵؍روزہ تعلیمی ٹور پر آنے والی لڑکیاں گزشتہ جمعرات کو باندرہ ٹرمنس سے جموںجانےوالی سوراج ایکسپریس پکڑ کر جموں کیلئےروانہ ہوگئیں۔نمائندۂ انقلاب  نے باندرہ ٹرمنس پران میں سےچند سےگفتگو کی۔ بارہ مولہ ضلع کے پکھواڑہ گائوںسےتعلق رکھنےوالی۲۲؍سالہ گلشن آراء نے بتایا کہ’’جب میں ۳؍سال کی تھی تب ہی والد کا انتقال ہوگیاتھا۔ بے روزگاری کےسبب والدہ ہم بھائی بہنوں کی پرورش نہیں کرسکتی تھیں۔گھرمیں ایک وقت کے کھانےکا انتظام نہیں تھا۔  ایسےمیںمیری والدہ کو کسی خاتون نے بی ڈبلیوایف کے بارے میںبتایا۔والدہ نے بی ایف ڈبلیومیں مجھے داخل کروادیا۔ وہ فیصلہ آج نکھرکرسامنے آیاہے۔ آج میں جوکچھ بھی ہوں،بی ایف ڈبلیو کی وجہ سے ہوں۔ ‘‘ گلشن آراء  فی الحال تمل ناڈوکے ایک کالج میں  انجینئرنگ کے آخری سال میں ہیں۔ تعلیم کا پورا خرچ بی ایف ڈبلیو نے اُٹھایاہے۔
  کپواڑہ ضلع کی افروزہ یوسف لون نے بتایاکہ ’’ والد کے انتقال کےبعد والدہ کیلئے ہم ۳؍بہنوںاور ایک بھائی کو پالنا مشکل تھا۔ غریبی کی انتہاتھی۔جس گھر میں کھانے پینے کی دقت ہو وہاں پڑھائی کےبارےمیں سوچنا بھی گناہ ہوتاہے۔ غربت کی وجہ سےآج بھی ماں ہمیں گھر میں نہیں رکھ سکتی ۔ میں تیسری جماعت میں تھی جب میری والدہ نے ہم ۲؍بہنوںکو بی ایف ڈبلیو میں داخل کروایا۔ اگر میںگھر میں ہوتی تو شاید پوری زندگی گزر جانے کےباوجود کاپی ،کتاب تو دور ایک پنسل بھی نہیں دیکھ پاتی مگر اب میں جلد ہی گریجویشن مکمل کرنے والی ہوں۔‘‘ بی ڈبلیو ایف کے توسط سے کشمیر کی لڑکیاں مہاراشٹر اورتمل ناڈو سمیت کئی ریاستوں  میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK