• Wed, 22 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

حلال مصنوعات کے منافع سے دہشت گردی کی مالی معاونت کا آدتیہ ناتھ کا دعویٰ

Updated: October 22, 2025, 6:23 PM IST | Lucknow

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے دعویٰ کیا ہے کہ حلال تصدیق شدہ مصنوعات کی فروخت سے حاصل ہونے والا منافع دہشت گردی، ’لوجہاد‘اور مذہبی تبدیلی کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔ انہوں نے اپنی حکومت کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں حلال تصدیق شدہ اشیاء کی فروخت، پیداوار اور تقسیم پر پابندی ضروری تھی۔

Yogi Adityanath. Photo: INN.
یوگی آدتیہ ناتھ۔ تصویر: آئی این این۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے منگل کو دعویٰ کیا کہ حلال تصدیق شدہ مصنوعات کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع کو ملک میں دہشت گردی، ’لو جہاد‘ اور مذہبی تبدیلی کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ’لو جہاد‘ ہندوتوا نظریہ ہے جس کے مطابق مسلمان مرد ہندو خواتین کو رومانوی تعلقات میں پھنساتے ہیں تاکہ انہیں اسلام میں تبدیل کیا جا سکے۔ وزارت داخلہ نے پارلیمنٹ کو بتایا ہے کہ ہندوستانی قانون میں اس اصطلاح کی کوئی قانونی تعریف موجود نہیں ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی صدی سالگرہ کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، بی جے پی کے لیڈرنے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ملک میں حلال تصدیق شدہ مصنوعات کے۲۵؍ ہزار کروڑ روپے کے لین دین ہو رہے ہیں۔ 
حلال عربی لفظ ہے جس کے معنی ’جائز‘‘ ہیں۔ خوراک کے سیاق و سباق میں، جہاں یہ زیادہ تر استعمال ہوتا ہے، اس کا مطلب ہے ایسی خوراک جو اسلامی قوانین کے مطابق جائز ہو۔ نومبر۲۰۲۳ء میں، اتر پردیش حکومت نے حلال تصدیق شدہ غذائی اشیاء کی فروخت، پیداوار، ذخیرہ اور تقسیم پر پابندی عائد کر دی تھی۔ منگل کو، آدتیہ ناتھ نے اپنی حکومت کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اتر پردیش میں حلال تصدیق کے ساتھ کپڑے اور صابن بھی فروخت کئے جا رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہا: ’’کسی بھی سرکاری ایجنسی نے ان مصنوعات کو یہ شناخت نہیں دی ہے۔ ‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی جو ’’حلال سرٹیفیکیشن کے نام پر ہندوستانی صارفین کا استحصال کر رہے ہیں۔ ‘‘
اتر پردیش کی پابندی کے بعد، کئی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھیں، جن میں حلال انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ اور جمعیت علمائے ہند زحلال ٹرسٹ شامل ہیں، جو نوٹیفیکیشن کی آئینی حیثیت کو چیلنج کر رہی ہیں۔ جنوری میں، ریاستی حکومت نے اعلیٰ عدالت میں دعویٰ کیا کہ حلال تصدیق کرنے والی ایجنسیاں زیادہ فیس وصول کر رہی ہیں، اور الزام لگایا کہ اس عمل کے ذریعے کل رقم کئی لاکھ کروڑ روپے تک ہو سکتی ہے۔ اتر پردیش حکومت کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا:’’جہاں تک حلال گوشت وغیرہ کا تعلق ہے، کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا۔ لیکن آپ کے معزز حضرات کو حیرت ہوگی، جیسا کہ مجھے کل حیرت ہوئی، کہ یہاں تک کہ سیمنٹ بھی حلال تصدیق شدہ ہونا چاہئے! استعمال ہونے والی لوہے کی سلاغ کو بھی حلال تصدیق کی ضرورت ہے، پانی کی بوتلیں بھی حلال تصدیق شدہ ہونی چاہئیں۔ ‘‘
جواب میں، درخواست گزاروں کے قانونی وکیل نے دلیل دی کہ مرکزی حکومت کی پالیسی میں کسی پروڈکٹ کو حلال قرار دینے کیلئے تفصیلی ہدایات موجود ہیں، جو گوشت کے علاوہ دیگر اشیاء پر بھی لاگو ہوتی ہیں۔ کئی ممالک میں حلال خوراک کی تصدیق کیلئے قانونی نظام موجود ہے جبکہ بعض میں نجی ادارے کمپنیوں کو یہ سرٹیفکیٹ دیتے ہیں۔ ہندوستان میں کوئی قانونی اتھاریٹی حلال سرٹیفکیٹ جاری نہیں کرتی لیکن کچھ نجی تنظیمیں اور مذہبی گروہ یہ سرٹیفکیٹ فراہم کرتے ہیں۔ خوراک کی مصنوعات بنانے والے عموماً برآمد کے مقاصد کیلئے حلال سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہیں کیونکہ یہ کئی مسلم ممالک میں قانونی ضرورت ہے۔ ’اسکرول‘ کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ بہت سی مصنوعات آخرکار گھریلو مارکیٹ میں بھی پہنچ جاتی ہیں کیونکہ مینوفیکچررز الگ پیکیجنگ پر آنے والے اخراجات بچانے کیلئے ایسا کرتے ہیں۔ سبزی خور خوراک کی مصنوعات کے معاملے میں، مواد بالکل وہی ہوتا ہے اور اکثر وہی پیداوار لائن استعمال ہوتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK