Inquilab Logo

عدالتی حکم کے باوجود یوپی میں’ لوجہاد‘ مخالف آرڈیننس

Updated: November 25, 2020, 6:02 AM IST | Jeelani Khan Aleeg | Lucknow

الہ آباد ہائی کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ ہر بالغ شہری کو شریک حیات کےا نتخاب کا آئینی حق ہے ،سرکار بھی مداخلت نہیںکرسکتی مگر اس کی پروا کئے بغیر یوگی سرکار نے آرڈیننس کو منظوری دیدی،شناخت چھپا کر بین المذاہب شادی کرنے پر ۱۰؍ سال تک کی قید، مذہبی رہنما بھی جیل جاسکتےہیں ،تبدیلیٔ مذہب کی پیشگی اطلاع ضلع مجسٹریٹ کو دینا لازمی

Yogi Adityanath - Pic : INN
یوگی آدتیہ ناتھ ۔ تصویر : آئی این این

الہ آباد ہائی کورٹ کے اس  اہم فیصلے کے بعد بھی کہ ہر بالغ  شہری کواپنے شریک حیات کے انتخاب کا آئینی حق ہے اورا س حق میں حکومت سمیت کوئی مداخلت کا مجاز نہیں ہے ، یو پی سرکار  نے  بین المذاہب شادیوں کو مشکل کرتے ہوئے   منگل کو ہنگامی طورپر ایک آرڈیننس کو منظوری دیدی۔ حکومت اسے لوجہاد کے خلاف قانون قرار دے رہی جس میں شناخت  چھپا کر بین المذاہب شادی کرنے پر نہ صرف ۱۰؍ سال کی سزا ہوسکتی ہے بلکہ شادی میں شریک مذہبی لیڈر بھی جیل جاسکتے ہیں۔ غیر قانونی تبدیلی مذہب مخالف آرڈیننس-۲۰۲۰ء   کے نام سے منظور کئے گئے اس قانون کی روسے اب تبدیلی ٔمذہب کی پیشگی اطلاع ضلع مجسٹریٹ کو دینا لازمی ہوگئی ہے۔ 
 بین المذاہب شادی جرم نہیں  ہے
  بھگوا عناصر کے ذریعہ نام  نہاد ’لو جہاد‘پر جاری ہنگامہ کے دوران الہٰ آباد ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلہ میں واضح کیا  کہ بین مذہبی شادی نہ جرم ہے نہ غیر قانونی عمل۔ کورٹ نے  واضح کیا کہ  دو بالغ  شہری یہ  آئینی حق رکھتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے شریک حیات کا انتخاب کریں اور  ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزاریں،اس میں مذہب کا کوئی دخل نہیں ۔ساتھ ہی،یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ کس سے ملنا چاہیں اور کس سے نہیں۔ کورٹ نے دوٹوک لہجے میں کہا ہے کہ آئین ان کے بنیادی حقوق کی پاسداری کی ضمانت دیتا ہے  اور  کوئی  جس میں سرکار بھی شامل ہے،  ان کی زندگی میں مداخلت  کی مجاز نہیں ہے۔
 الہٰ آباد ہائی کورٹ نے یہ کشی نگر کے سلامت علی اور ان کی اہلیہ پرینکا کھروار عرف عالیہ کی  پٹیشن پر  یہ فیصلہ پیر کو سنایا اورکہا کہ دونوں بالغ ہیں اور آئینی حق رکھتے ہیں کہ اپنی مرضی کا ہمسفر چنیں،ان کے ساتھ زندگی جئیں۔ان کا مذہب الگ ہے اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ انہوں نے یہ شادی کرکے کوئی جرم کیا ہے۔
اسلام قبول کرکے شادی کرنے والی خاتون کو راحت
  جسٹس پنکج نقوی اور جسٹس وویک اگروال کی بنچ    سلامت علی اور ان کی اہلیہ پرینکا کھروار عرف عالیہ   کے خلاف دائرمقدمہ کو خارج کرتے ہوئے پرینکا  کے والد کی اس درخواست کو بھی  مسترد کردیا کہ انہیں اپنی بیٹی سے ملنے کا پورا حق ہے۔ فاضل ججوں نے کہا کہ عالیہ بالغ ہیں اور  ان کو یہ حق ہے کہ وہ خود طے کریں کس سے ملنا ہے اور کس سے نہیں۔
 یوپی سرکار کی دلیل ٹھکرادی گئی
 کورٹ نے اس جوڑے کے خلاف دائر ایف آئی آر کو کالعدم قرار دیتے ہوئےکہا کہ اس معاملے میںکسی  جرم کا ارتکاب ہی  نہیں  ہوا ہے۔  کورٹ نے  مزید کہا:اپنی پسند کے شخص کے ساتھ رہنے کا حق، اس کے بعد بھی ہے کہ آپ نے کس مذہب کو قبول کیا ہے۔ یہ  حق  جینے کی آزادی اور شخصی آزادی کا حصہ ہے۔ اتنا ہی نہیں، فاضل ججوں نے ریاست کی اس دلیل کو ٹھکرا دیا کہ الگ الگ مذاہب کے سبب یہ شادی جائز ہی نہیں ہے۔   الہٰ آباد ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ ۱۱؍نومبر کو سنایا تھا تاہم اسے عدالت کی ویب سائٹ پر ۲۳؍نومبر کو اپ لوڈ کیا گیا ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد بھی آرڈیننس
  یوگی حکومت نے عدالت کے فیصلے کی پروا نہ کرتے ہوئے مبینہ ’لو جہاد‘کے خلاف منگل کو آرڈیننس منظور کرلیاتاہم اس کا نام ’’غیر قانونی تبدیلی مذہب مخالف آرڈیننس-۲۰۲۰ء‘‘ رکھا گیا  ہے۔اس میں شناخت چھپاکر بین مذہبی شادی کو غیر قانونی  قرار دینے اور قصوروار کو ۱۰؍سال تک کی قید کا التزام ہے۔ساتھ ہی، ایسی شادی یا تبدیلی مذہب سے ۲؍ماہ قبل ضلع مجسٹریٹ کوتحریری طور پر مطلع کرنا لازمی ہوگا۔ آرڈیننس میں ایسے مذہبی رہنمائوں یا تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی کی بات کہی گئی ہے جوخفیہ طریقہ سے متعلقہ افسران کی اجازت کے بغیر تبدیلی مذہب یا ایسی شادیاں کراتے ہیں۔انہیں جیل جانا ہوگا جبکہ تنظیموں کا رجسٹریشن منسوخ  ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK