Inquilab Logo

’’ سی اے اے مخالف مظاہرین کو فوراً رہا کیا جائے‘‘

Updated: June 28, 2020, 9:44 AM IST | Inquilab News Network | New Delhi

اقوام متحدہ کےماہرین کا مطالبہ، یواین ہیومن رائٹس کمیشن سے وابستہ افراد نے تشویش کااظہار کیا کہ حقوق انسانی کا دفاع کرنے والے ان رضاکاروں کی گرفتاری کا مقصد ہندوستان کے شہری سماج کو ’’یہ خوفناک پیغام دینا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید برداشت نہیں کی جائیگی ۔‘‘ مظاہرین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بھی حوالہ دیا

CAA Protest - Pic : INN
سی اے اے کیخلاف احتجاج ۔ تصویر : آئی این این

ہندوستان میں شہریت ترمیمی ایکٹ  کے خلاف مظاہروں میں  میں قائدانہ رول ادا کرنے والے سماجی کارکنان اور طلبہ کی گرفتاریوں  اورانہیں مسلسل قید میں  رکھے جانے  کے خلاف اب اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن  نےبھی آواز بلند کی ہے۔  ہیومن رائٹس کمیشن کے ماہرین نے حکومت ہند سے مذکورہ کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے اس بات پر تشویش کااظہار کیا ہے کہ ان گرفتاریوں کا مقصد  ہندوستانی شہری سماج کو ’’یہ خوفناک پیغام دیناہے کہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید برداشت نہیں کی جائےگی۔‘‘
گرفتاری کا مقصد سماجی کارکنان میں خوف پیدا کرنا
 جنیوا  میں  یو این ہیومن رائٹس ہائی کمشنر کے دفتر سے جاری کئے گئےبیان میں کہاگیا ہے کہ ’’ یہ ظاہر ہورہا ہے کہ حقوق انسانی کا دفاع کرنے والے ان لوگوں کو جن میں سےمتعدد طلبہ ہیں، صرف اس لئے گرفتار کیاگیا ہےکہ انہوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کو مسترد کرنے  اوراس کے خلاف احتجاج کرنے کے اپنے حق کا استعمال کیا۔ ‘‘ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ہائی کمشنر  کے دفتر سےجاری کئے گئے بیان  میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’یہ گرفتاریاں واضح طور پر اس مقصد کےتحت کی گئی ہیں کہ  ہندوستان کے متحرک شہری سماج کو یہ خوفناک پیغام دیا جائے کہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید برداشت نہیں کی جائےگی۔‘‘
  واضح رہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مظاہروں کی قیادت کرنے والے متعددا فراد کو دہلی پولیس نے دہلی فساد کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔ اقوام متحدہ  کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں بطور خاص میراں  حیدر، گلفشاں فاطمہ، صفورہ زرگر، آصف اقبال تنہا، دیوانگنا کلیتا، نتاشا ناروال، خالد سیفی، شفاء الرحمٰن، ڈاکٹر کفیل خان، شرجیل امام اور اکھل گوگوئی کا ذکر کیاگیا ہے۔ صفورہ زرگر کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے کمیشن نے کہا ہے کہ ’’ان میں سے  چونکادینے والا ایک کیس صفورہ زرگر کا ہے جسے ۲؍ ماہ تک جیل میں ایسے حالات میں حالات میں  رکھاگیاجسے قید تنہائی قرار دیا جاسکتا ہے، اسے اس کے اہل خانہ اور قانونی نمائندوں سے مسلسل رابطے میں نہیں  رہنے دیاگیا اور مناسب طبی مدد اور غذا نہیں فراہم کی گئی۔ اسے بالآخر ۲۳؍ جون کو اس کے حمل کے چھٹے مہینے میں انسانی بنیادوں  پر ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیاگیا۔‘‘
پولیس کے جانبدارانہ رویے پر تنقید
 اقوام متحدہ کے مذکورہ نمائندوں  نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو ’’حقوق انسانی کا دفاع کرنے والے‘‘ قرار دیتے ہوئے  مطالبہ کیا ہے کہ ’’حکومت ہند حقوق انسانی کا دفاع کرنے والوں کو فوری طور پر رہا کرے جو فی الحال مقدمہ شروع ہونے سے پہلے کےمرحلے میں خاطر خواہ  ثبوت کے  بغیر جیل میں بند ہیں۔‘‘ یواین ہیومن رائٹس کمیشن    کے ماہرین  نے   اس بات کا خاص طور پر تذکرہ کیا ہے کہ گرفتار شدگان میں سے ’’اکثر اُن تقریروں کی بنیاد پر گرفتار کئے گئے ہیں جو انہوں  نے سی اے اے کے امتیازی پہلو پر تنقید کرتےہوئے کی تھیں۔‘‘ہندوستان میں پولیس اور حکومت  کے  رویے سے پوری طرح آگہی کا مظاہرہ کرتےہوئے اقوام متحدہ کے ماہرین  نے اس بات پر تشویش کااظہارکیا ہے کہ سرکاری حکام کا رویہ جانبدارانہ رہا ہے۔ان کے مطابق’’ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ سی اے اے  حامیوں کے ذریعہ نفرت انگیزی اور اشتعال پر اکسانے کے معاملات کی یکساں طور پرجانچ نہیں کی جن میں  سے کچھ  مخالف ریلیوں میں غداروں کوگولی مارو... کے نعرے بھی بلند کئے ہیں۔‘‘ 
 یو اے پی اے کے اطلاق پر تشویش
 ماہرین نے اس بات پر بھی تشویش کااظہار کیا ہے کہ سی اے اے مخالف مظاہرین پر دہشت گردی مخالف قانون(یو اے پی اے) عائد کیا جارہاہے اور انہیں ضمانت سے محروم رکھنے کیلئے پولیس کےاختیارات کا ناجائز استعمال ہورہاہے نیز ان پر ایسے الزامات عائد کئے جارہےہیں جن کی سزاکافی زیادہ ہے۔‘‘ لاک ڈاؤن کے دوران گرفتاریوں پر حیرت کااظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے نمائندوں نے کہا ہے کہ ’’حالانکہ مظاہرے کووڈ کی وبا کی وجہ سے مارچ میں ختم ہوگئے تھے،ہندوستان کے سپریم کورٹ نے طبی وجوہات سے جیلوں کی بھیڑ کم کرنے کا حال ہی میں حکم دیا ہے مگر مظاہروں کے قائدین کو گرفتار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہندوستانی جیلوں میں وبا کے پھیل جانے کے سبب مظاہرین کی فوری رہائی اور بھی ضروری ہوگئی ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK