Inquilab Logo

اصغر علی روزگار کی تلاش میں اور عبدالقادر محرم منا کر ممبئی آرہے تھے

Updated: August 01, 2023, 10:58 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai

پولیس اہلکاروں میں پال گھر سے ہی جھگڑا چل رہا تھا اور طیش میں آکرایک اہلکار نے گولیاں چلا دیں جس سے ۳؍ بے قصوروں کی بھی جان چلی گئی۔ مقتول اصغرشیخ کے رشتہ داروں کا اسپتال کے باہر دھرنا

Accused police officer Chetan Singh is being taken to Borivali police station. (Photo: PTI)
ملزم پولیس اہلکار چیتن سنگھ کو بوریولی پولیس اسٹیشن لے جایا جارہا ہے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

جے پور- ممبئی سینٹرل سپر فاسٹ ایکسپریس ٹرین سے ممبئی آرہے عبدالقادر بھانپور والا (۶۵؍ سال) اور اصغر عباس علی شیخ (۴۸؍ سال) بوریولی ریلوے اسٹیشن پر اترنے کیلئے بوگی کے دروازے پر  کھڑے ہوگئے تھے ۔ اس وقت قریب ہی کھڑے `ریلوے پروٹیکشن فورس  (آر پی ایف) کے اے ایس آئی ٹیکا رام مینا اور ان کے ماتحت کانسٹبل چیتن سنگھ میں زبردست جھگڑا ہوگیا اور  اچانک چیتن نے اپنی خودکار رائفل سے گولیاں چلانا شروع کردیں جن کی زد میں آکر عبدالقادر، اصغرعلی  اور ایک نامعلوم شخص کا انتقال ہوگیا۔ 
اصغرعلی کے رشتہ دارصدمہ سے نڈھال
  اصغر علی کے بھائی امان اللہ نے بتایا کہ ان کا آبائی وطن مدھوبنی بہار ہے لیکن اصغر جےپور میں منتقل ہوگیا تھا اور کنگن اور چوڑیوں کو خوبصورت بنانے کیلئے ٹکلی اور دیگر چیزیں جوڑنے کا کام کرتا تھا۔  البتہ اس کا کام اچھا نہیں چل رہا تھا۔ جو تاجر اصغر کو کام دیا کرتا تھا اس نے اسے مشورہ دیا تھا کہ مزید کام حاصل کرنے کیلئے وہ ممبئی یا یونے جاکر وہاں کے تاجروں سے بات کرے۔ اسی مقصد سے وہ ممبئی آرہا تھا کہ راستے میں یہ واردات ہوگئی اور اس کا پورا گھر اجڑ گیا۔ اصغر کےپسماندگان میں بیوہ،  ۴؍ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ان کی سب سے بڑی بیٹی کی عمر ۱۲ ؍سال جبکہ سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر۲؍ برس ہے۔  وہ موذن بھی تھے۔ امان اللہ ممبئی میں ہی ملازمت کرتے ہیں لیکن اصغر کا ممبئی سے کوئی تعلق نہیں تھا اس لئے ان کی لاش وطن لے جائی جائے گی۔ 
 رشتہ داروں کا اسپتال کے باہر دھرنا
   اصغرعلی کے رشتہ داروں کوان کی لاش کے پوسٹ مارٹم   شتابدی اسپتال  سے جے جے اسپتال منتقل کرنے کیلئے مبینہ طورپر ایمبولنس کے بھی اخراجات ادا کرنے کی ہدایت   پر انہوں نے شام تقریباً ۷؍ بجے شتابدی اسپتال کے باہر احتجاج کرتے ہوئے دھرنا دیا۔ البتہ خبر لکھے جانے تک لاش کو ایمبولنس کے ذریعہ جے جے اسپتال روانہ کردیا گیا تھا لیکن ان کا احتجاج جاری تھا۔   آصف شیخ نامی رشتہ دارنے انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس شخص کی ذمہ داری جان بچانا تھی اس نے ہی بے قصوروں کی جان لے لی۔ مرحوم اصغر کے ۵؍ چھوٹے بچے ہیں ،ان کی پرورش کی ذمہ داری کون لے گا؟ اس لئے جس پولیس والے نے اصغر کی جان لی ہے اس کی تنخواہ بھی ان کے اہل خانہ کو ملنی چاہئے۔  انہوں نے یہ بھی کہا  کہ لاش کو جے جے لے جانے کیلئے ایمبولنس کا خرچ بھی   اہل خانہ کو ہی ادا کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ اصغر کی مالی حالت ٹھیک نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ ممبئی آرہے تھے، یہ سب اخراجات کیسے دیئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ لاش کو جے پور لے جانے کا الگ خرچ ہے، وہ کیسے ادا کیا جائے گا؟‘‘
عبدالقادر محرم منانے کیلئے اپنے وطن بھانپور گئے تھے
 صبح تقریباً ۶؍بجے سے اسپتال میں موجود اپنے عزیز کی لاش حاصل کرنے کیلئے کوشاں عبدالقادر کے ایک قریبی رشتہ دار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انقلاب کو بتایا کہ’’ ہمارے وطن سے تعلق رکھنے والے ایک دوست بھی اسی ٹرین میں سفر کر رہے تھے جس میں یہ واردات ہوئی اور انہوں نے ہی ہمیں  حا لات سے آگاہ کیا۔‘‘ اس شخص نے مزید کہا کہ’’اس دوست کے بقول پال گھر سے ہی ان دونوں پولیس والوں میں جھگڑا ہورہا تھا۔ ہمارے دوست کو ممبئی سینٹرل ریلوے اسٹیشن پر اترنا تھا اس لئے وہ اپنی جگہ پر سوگئے لیکن عبدالقادر اور اصغر کو بوریولی اترنا تھا اس لئے یہ دونوں ڈبے کے گیٹ کے پاس کھڑے ہوگئے تھے اور اسی وقت دونوں پولیس اہلکاروں کی بحث میں اس قدر شدت پیدا ہوگئی کہ وہ دونوں زور زور سے چیخنے لگے جس کی وجہ سے ڈبے میں سو رہے سارے لوگ جاگ گئے۔ ہمارے دوست آواز کی سمت آنے کے لئے سوچ رہے تھے تبھی انہوں نے گولیوں کی آواز سنی۔ جب گولیوں کی آواز تھم گئی تب وہ دروازے کے پاس پہنچے تو ان کے ہوش اڑ گئے کیونکہ ایک پولیس افسر کے ساتھ عبدالقادر اور دیگر ۲؍لوگ خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے۔‘‘ عبدالقادر کو آنکھ کے نیچے چہرے پر گولی لگی تھی جو سر کے پار چلی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ واردات میرا روڈ اور بوریولی کے درمیان ہوئی ہے۔ اس شخص نے مزید بتایا کہ عبدالقادر محرم منانے کیلئے مدھیہ پردیش میں واقع اپنے آبائی وطن بھانپور گئے ہوئے تھے جو ضلع منڈسور میں ہے۔ عاشورہ کے اختتام پر وہ ممبئی واپس آرہے تھے تبھی اس واردات میں ان کی جان چلی گئی۔
  اس رشتہ دار نے یہ بھی بتایا کہ عبدالقادر کے پسماندگان میں بیوہ، ۲؍ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ بیٹی شادی کے بعد سے احمدآباد میں رہائش پذیر ہے  جبکہ دونوں بیٹے دبئی میں ملازمت کرتے ہیں ۔ چونکہ دبئی میں بوہروں کے روحانی سربراہ سیدنا مفضل سیف الدین کا واعظ تھا اس لئے عبدالقادر کی اہلیہ بھی اس میں شرکت کیلئے دبئی گئی ہوئی ہیں۔   ان کی بیوہ اور بیٹوں کو ممبئی آنے کا ٹکٹ نہیں مل رہا البتہ ان لوگوں نے ممبئی میں اپنے رشتہ داروں کو ہدایت دی ہے کہ ان کی شرکت کے بغیر تدفین نہ کی جائے۔ 
 عبدالقادر کئی برسوں سے نالاسوپارہ میں رہائش پذیر تھے اور یہاں بچوں کے ڈائپر تھوک میں فروخت کرنے کی ایک دکان چلاتے تھے۔ ان کی تدفین بھی نالا سوپارہ   کے قبرستان میں کی جائے گی۔ 
 انقلاب سے گفتگو کرنے والے شخص نے یہ بھی کہا کہ  عبدالقار اے سی ڈبے میں تھے اور یہ واردات کوئی جنرل ڈبے میں نہیں ہوئی ہے ایسے میں ریلوے میں مسافروں کے تحفظ پر بھی سوال اٹھتا ہے۔

train Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK