Inquilab Logo

افغانستان کوئی ویتنام نہیں ہے، ہماری حکومت نہیں گرےگی، ملک کا فیصلہ عوام کریں گے

Updated: February 23, 2021, 1:24 PM IST | Agency | Kabul

اشرف غنی کو امید ہے کہ نیٹو کے فوج واپس نہ بلانے کے فیصلے سے افغانستان میں امن قائم کرنے میں مدد ملے گی، دوسری طرف جنگ کی تیاریوں کے تعلق سے بھی اعتراف

Ashraf Ghani.Picture:INN
اشرف غنی۔تصویر :آئی این این

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ ان کے دور اقتدار کی میعاد کا مکمل ہونا، ملک میں امن قائم کرنے سے زیادہ اہم نہیں ہے تاہم افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ میز کے پیچھے بیٹھ کر کوئی خواب دیکھنے والا نہیں بلکہ عوام کریں گے۔ دراصل اشرف غنی نے مشہور میڈیا ہائوس  بی بی سی کو ایک انٹرویو دیا ہے۔  اس میںانہوں نے طالبان کی کامیابی کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ’ ’یہ ویتنام نہیں ہے، (ہماری) حکومت نہیں گر رہی ہے۔‘‘ اشرف غنی نے کہا کہ نیٹو کے اس اعلان کے بعد کہ اس نے افغانستان سے فوج واپس بلانے سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا امن کے عمل کو مزید تیز کرنے کا موقع ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیٹو کے اعلان سے اس تنازع کے تمام فریقین کو دوبارہ جائزہ لینے اور اس نتیجے پر پہنچنے کا موقع ملا ہے کہ طاقت کا استعمال اس مسئلے کا حل نہیں۔‘‘ واضح رہے کہ جنگ سے متاثرہ افغانستان میں نیٹو فوجی اتحاد کے تقریباً ۱۰؍ ہزار فوجی موجود ہیں۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہوئے معاہدے کے مطابق ان فوجیوں کو تقریباً ۲۰؍ برس بعد اس سال مئی تک افغانستان سے نکال لیا جائے گا لیکن یہ خدشات موجود ہیں کہ اس سے طالبان کی پرتشدد کارروائیوں میں شدت آ سکتی ہے۔اشرف غنی، جو امریکہ اور طالبان کے اس  معاہدے کا حصہ نہیں تھے، نےبتایا کہ وہ نئے امریکی انتظامیہ کے ساتھ اپنے تعلقات اور افغانستان کے مستقبل کے بارے میں عالمی برادری کے نقطہ نظر میں ایک نئی ’ہم آہنگی‘ پر خوش ہیں۔  امریکی صدر جو بائیڈن، سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں طے پانے والےاس معاہدے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اگرچہ افغانستان میں موجود زیادہ تر غیر ملکی فوجی امریکی نہیں تاہم امریکی حمایت نہ ملنے پر نیٹو آپریشن کو جاری رکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔یاد رہے کہ افغانستان میں امریکہ کی حالیہ موجودگی ۲۰۰۱ءمیں ۹؍۱۱؍ کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سامنے آئی جب فوجیوں نے طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے حملہ کیا۔ لیکن یہ تحریک دوبارہ منظم ہو گئی اور ۲۰۱۸ء تک منتخب حکومت کو دھمکی دیتے ہوئے ملک کے دو تہائی سے زیادہ حصے میں سرگرم عمل ہو گئی۔ افغانستان کے صدر نے مزید کہا کہ ’’یہ پیغام بھیجنے کیلئے کہ مخصوص قسم کے طرز عمل ناقابل قبول ہیں، بین الاقوامی سطح پر ’ٹھوس کوشش‘ کی ضرورت ہے۔‘افغان صدر کو طالبان کو اقتدار میں لانے کیلئے ایک عبوری حکومت لانے کے مطالبے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تاکہ انتشار اور ممکنہ خانہ جنگی سے بچا جا سکے۔ اشرف غنی نے انٹرویو میں کہا ’میں سانحات سے بچنے کیلئے اتفاق رائے کی طاقت کی طرف ہی دیکھ رہا ہوں۔‘ تاہم انھوں نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ دونوں فریق جنگ کی تیاری کر رہے ہیں کہا کہ ’خانہ جنگی کے تعلق سے بہت سے خدشات ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا’ ’ہماری طرف عجلت کا ایک احساس ہے، ہم سخت فیصلے کرنے پر راضی ہیں اور سخت فیصلوں کی ضرورت ہو گی۔ اس ملک میں ۴۰؍سال کا تشدد کافی ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK