Inquilab Logo

آسام : بستی اُجاڑنےکیخلاف احتجاج کرنے والوں کی گرفتاریاں

Updated: October 02, 2021, 11:24 AM IST | Inquilab News Network | Guwahati

تینوں گرفتار شدگان کا تعلق اقلیتی فرقہ سے، ہجوم کو اُکسانے کا الزام ، پولیس کی ظالمانہ فائرنگ کیلئے کوئی گرفتار نہیں  ہوا

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 آسام کے درانگ ضلع میں  پولیس کی ظالمانہ فائرنگ میں ایک بچے سمیت ۲؍ افراد کی موت کے سلسلےمیں تو کوئی گرفتاری نہیں ہوئی البتہ متاثرین  اور پولیس کی گولیوں کا شکار ہونےوالوں کی ہی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہوتا نظر آرہاہے۔  پیر کو ۲؍ افراد کی گرفتاری کے بعد انڈین ایکسپریس نے اطلاع دی ہے کہ جمعرات کو دھول پور سے سفیر الدین (۴۰؍ سال) کو حراست میں   لیا گیا ہے۔اس طرح گرفتار شدگان کی تعداد ۳؍ ہوگئی ہے۔سفیر الدین کی گرفتاری کی تصدیق کرتے  ہوئے درانگ کے ایس  پی سشانت بسوا شرما نے بتایا کہ ’’سابقہ دو گرفتار شدہ افراد کی طرح انہیں بھی مظاہرین کو اُکساتے ہوئے پایاگیاہے۔‘‘ پیر کو پولیس نے چاند محمد (۴۷) اور عصمت علی عالم (۳۷)  کو گرفتار کیاتھا۔  تشدد میں پاپولر فرنٹ آف اندیا کے رول کے تعلق سے پوچھنے پر سشانت بسوا شرما  جو وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا شرما کے چھوٹے بھائی ہیں، نے بتایا کہ ’’ہم اس کی  تلاش کررہے ہیں۔‘‘ البتہ انہیں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ تینوں گرفتاریوں کا پی ایف آئی سے کوئی تعلق نہیں نکلا ہے۔  سفیر الدین کے بھائی ظفیر الدین  نےبتایا کہ ۲۳؍ ستمبر کے تشدد میں ان کے بھائی کو بھی گولی لگی تھی۔ ظفیر الدین کےمطابق’’انہیں پیر میں  گولی ماری گئی تھی اور علاج کیلئے گوہاٹی میڈیکل کالج لے جایاگیاتھا۔  انہوں  نے الزام لگایا کہ پولیس  نے ان کے بھائی کوزخمی ہونے کے باوجود بدھ کی رات اسپتال سے اٹھایا اور سیدھے سیپا جھار پولیس اسٹیشن لےگئی۔ سفیر الدین کے بھائی کا الزام ہے کہ ان کے زخم ابھی بھرے نہیں  ہیں مگر پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا جبکہ سپرنٹنڈٹ آف پولیس کا دعویٰ ہے کہ اسپتال سے چھٹی ملنے کے بعد ہی سفیر الدین کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔    تشدد کے باوجود انہدامی کارروائی جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بسوا شرما نے کہا ہے کہ اسے عوام ککی حمایت حاسل ہے۔ 

assam Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK