Inquilab Logo

آسام : این آر سی میں نام موجود پھر بھی گھر ڈھا دیاگیااورکیمپوں میں منتقل کردیا گیا

Updated: January 14, 2020, 8:45 AM IST | Afroz Alam Sahil | Dispur

یہ کہانی این آر سی اورسی اے اے سے آگے کی ہے ، آسام کے سونت پورضلع میں بسنے والے مسلم باشندوں کے گھر انہیں بنگلہ دیشی قراردیتے ہوئے صرف اس وجہ سے مسمار کردئیے گئےکہ وہ اس مخصوص علاقے کے ووٹر نہیں تھے جہاں وہ مقیم تھے، ان کے پاس زمین اور ملک کے شہری ہونے کے تمام دستاویزات موجود ہیں لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی ،۴۲۶؍ خاندانوں کو بے گھر کردیاگیا ہے ، اپنی زمین سے محرو م یہ لوگ کھلےآسمان تلے کیمپوں رہ رہے ہیں۔

بے گھر کئےگئے ان افراد کے پاس زمین اورہندوستانی شہری ہونے کے تمام دستاویزات ہیں۔ تمام تصاویر: آئی این این
بے گھر کئےگئے ان افراد کے پاس زمین اورہندوستانی شہری ہونے کے تمام دستاویزات ہیں۔ تمام تصاویر: آئی این این

 یہ کہانی شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی سے آگے کی ہے۔اگر آپ مسلم ہیں ،لیکن اپنی ہی ریاست کے کسی دوسرے ضلع سے تعلق رکھتے ہیں یا آپ کا اسمبلی حلقہ کوئی اورہے تو ہوسکتا ہےاس علاقےکا رکن اسمبلی آپ کو اپنے حلقے میں رہنے نہ دے ۔ ایک ایسی ہی کہانی آسام کے سونت پور ضلع میں دیکھنے کو ملی ہے۔ مذکورہ ضلع میں تقریباً ۴۲۶؍ خاندانوں کے گھر توڑ ڈالے گئے ۔ اب تقریباً ڈھائی ہزار سے زیادہ لوگ سخت سردی کے اس موسم میں کھلے آسمان کے نیچےکیمپوں میں اپنی زندگی گزاررہے ہیں ۔سونت پور کے مکووا ،سیرووانی ا وربیہیاگاؤں میں لگائے گئے کیمپ اس کی گواہی دے رہے ہیں ۔ان کیمپو ں میں زیادہ تر لوگ ڈگولی چپوری ،بالی چپوری ،لال ٹوپ ، باٹی ماری بھیروی اورلنگی بازار گاؤں کے رہنے والے ہیں ۔  عارضی خیموں میں مقیم لوگوں کا الزام ہےکہ ان کے پاس زمین اور ہندوستان کے شہری ہونے کے تمام دستاویزات موجود ہیں لیکن بی جے پی کے رکن اسمبلی پدما ہزاریکا نےصرف اس لئے ان کے گھروں کو مسمار کردیا کیونکہ وہ اس علاقے کے ووٹر نہیں ہیں۔

 ڈگولی چپوری کے محمد ابراہیم علی کی آنکھیں کافی نم ہیں ۔وہ بار بار اپنے ٹوٹے ہوئے گھر کودیکھتے رہتے ہیں ۔وہ آنکھوں کے آنسو پونچھتے ہوئے بتاتے ہیں ’’ میں تیج پور سے یہاں آکربساتھا۔یہاں کی مسجد میں نماز پڑھاتا ہوں ۔ گزشتہ سات آٹھ سال سے لگاتار پیسے جمع کرکے زمین خریدی تھی اور یہ گھر بنایاتھا ۔لیکن ۵؍ دسمبرکومجھے بنگلہ دیشی بتاتے ہوئے میرے اس آشیانے کو توڑ ڈالا گیا ۔‘‘ یہ کہتے ہوئےوہ روپڑے ۔ پھر وہ آنکھوں کےآنسو پونچھتے ہوئے کہتے ہیں ’’گھر توڑنے کیلئے وہ لوگ اپنے ساتھ ہاتھی اور بلڈوزر لے کر آئےتھے۔کچے مکانوں پر ہاتھی چلادیا گیا اورپکے مکانوں پر بلڈوزر ۔ ساتھ میں بھاری پولیس فورس بھی تھی ۔ہمیں کچھ بھی بولنے کایا کاغذ دکھانے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ‘‘ ابراہیم علی کہتے ہیں ’’ میرا جنم ہندوستان میں ہوا ہے۔میرے باپ دادا سب یہیں پیدا ہوئے ہیں ۔این آر سی کی فہرست میں ہمارا نام ۱۹۵۱ء میں بھی تھا اوراس بار کے این آر سی میں بھی موجود ہے۔میرے پاس سارے کاغذات ہیں ۔پھر بھی پتہ نہیں کہ کس بنیاد پرپدما ہزاریکا مجھے بنگلہ دیشی بتارہے ہیں ۔‘‘ طاہرہ خاتون کی بھی یہی کہانی ہے۔وہ کیمپ سے آکر چپ چاپ خیالوں میں مگن اپنے ٹوٹے ہوئے گھر کو نہار رہی ہیں ۔ کئی سوال کرنےکے بعدوہ آسامی زبان میں بتاتی ہیں کہ’’ میرا ووٹ سونت پورمیں ہے۔ پدما ہزاریکا کوووٹ نہیں دے سکے اس لئے اس نےمیرا گھر توڑ دیا ۔‘‘کیمپ میں زندگی گزاررہے ۶۰؍ سال کے واحد علی بتاتے ہیں کہ ان کا گھر پہلے نوگاؤں میں تھا لیکن ۱۲؍ سال پہلےادھر آ گئے ۔’’ میرا ووٹر آئی ڈی نوگاؤں کا ہی ہے۔ووٹ دینے وہیں جاتا ہوں ۔اب یہاں ووٹ نہیں دینے سے یہاں کے ایم ایل اے نے میرا گھر توڑ دیا ۔ ‘‘  یہ پوچھنے پر کہ آپ نے اپنا ووٹر آئی ڈی یہا ں ٹراسفر کیوں نہیں کرایا ،انہوں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی ہندی میں جواب دیا ’’آپ یہاں کے نہیں ہیں اسلئےایسا سوال پوچھ رہے ہیں ۔ یہاں ووٹ ٹرانسفر کرانا اتنا آسان نہیں ہے۔اس چکر میں کئی لوگوں کو ڈی ووٹر بنادیاگیا اور اب این آر سی کے عمل میں یہ کام اور بھی مشکل تھا ۔ ‘‘ کھلے آسمان تلے کیمپوں میں زندگی گزارنے والے خواتین اوربچوں میں کافی غصہ ہے۔کئی خواتین کو محسوس ہورہا ہےکہ ان کی مستقبل کی زندگی میں ایک تاریک دور آنے والا ہے۔  پڑھائی کی بات پوچھنے پرضیاءالرحمٰن نامی ایک نوجوان برہم ہوجاتا ہے۔کہتا ہےکہ کون ماں باپ نہیں چاہتے کہ ان کا بچہ پڑھ لکھ کرپیسہ کمائے ۔لیکن ہم کیمپ میں کیسے پڑھیں گے ۔ اب تو جب سے ہمیں بنگلہ دیشی بول کر ہٹایا گیا ہے، اسکول جانے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتے۔ یہاں تو زندگی کیسے گزرے گی ، یہی نہیں پتہ ۔زیادہ تر لوگ خودکشی کرنے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں ۔ ہمارے گھر ہم سے چھین لئے گئے ۔ پہلے گھر تھاتو آس پاس سے کچھ اناج او رسبزی وغیرہ لاکرکھا لیتے تھے۔آ س پاس کے گاؤں میں کام بھی مل جاتا تھا ۔ لیکن جب سے سرکار این آر سی اورشہریت کا نیا قانون لے کر آئی ہےہم اسی میں الجھے ہوئے ہیں ۔آج کل ہر جگہ احتجاج ہورہا ہے۔کہیں کوئی کام نہیں ہے۔ سب بے کار پڑے ہوئے ہیں ۔  ۱۹؍ سالہ محمدعمر دسویں پاس ہے۔وہ ۱۲؍ ویں کرکےفوج میں شامل ہونا چاہتا تھا لیکن اب اسے بھی اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔وہ کہتا ہےکہ پتا جی بیمار ہیں ۔اوپر سے ہمیں بے گھر کردیاگیا ہے۔ایسے میں ہمیں پتہ نہیں کہ ہمارا مستقبل کیا ہے؟ ۸؍و یں میں پڑھنے والی سیمون نسابھی ڈاکٹر بننا چاہتی ہے لیکن وہ اسکول نہیں جا پارہی ہے۔اس کا کہنا ہےکہ کیمپ سے اسکول بہت دور ہے۔کیسےجا پائیں گے؟
 

اس سلسلے میں اخبار نوجیون نے رکن اسمبلی پدما ہزاریکا سے بھی گفتگو کی ۔وہ ان تمام الزامات کو خارج کرتے ہیں ۔ہزاریکا کاکہنا ہےکہ’’یہ لوگ ڈی ووٹر ہیں اور یہ لوگ یہاں زمین پرقبضہ کررہے تھے۔اس لئے ہم نے انہیں یہاں سے ہٹایا ۔‘‘جب نوجیون نے ان سے سوال کیا کہ اگریہ لوگ ڈی ووٹر ہیں تو کیا آپ سب کے گھر توڑ دیں گے؟ اس سوال پر ایم ایل اے نے جواب دیا کہ ’’ اس تعلق سے جو بھی بات کرنی ہے ، ضلع انتظامیہ سے کیجئے۔‘‘ ضلع کمشنر منویندر پرتاپ سنگھ کاکہنا ہےکہ ان لوگوں نے سرکاری زمین پر قبضہ کر رکھا تھا اس لئے انہیں وہاں سے ہٹایا گیا ہے۔جب ان سے کہا گیا کہ ان تمام لوگوں کے پاس زمین کے کاغذات موجود ہیں تو انہوں نے یہ بات کہی کہ ’’ ان کے پاس کاغذ ات ہیں توانہوں نے یہ زمین ان مالکان سے ہی خریدی تھی جن کا اس پر غیر قانونی قبضہ تھا ۔کیونکہ یہ سرکاری زمین ہے۔‘‘ یہ پوچھنے پر کہ کیا سبب ہےکہ کچھ چنندہ گھروں کو ہی توڑا گیا ہے۔ہم نے دیکھا ہےکہ ان کے بغل میں واقع دوسرے گھر محفوظ ہیں ، کیا وہ سرکاری زمین نہیں ہے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ہم سب کو جلدہی وہاں سے ہٹائیں گے کیونکہ ہمارا پلان وہاں پر انڈسٹریل پارک بنانے کا ہے۔منویندر پرتاپ سنگھ نے ضلع میں کسی بھی قسم کے کیمپ ہونے کی ہی تردید کردی ۔
 جماعت اسلامی ہندسے وابستہ ایک سماجی کارکن اسفاف الحسین بتاتے ہیں کہ ’’ پہلے تو ان کے ساتھ قدرت نے ناانصافی کی۔ جیا بھرولی ندی نے ان کی زمین کو نگل لیااور اب سرکاران سے ان کی زمین چھین رہی ہے۔کسی کے ساتھ اس سے زیادہ نا انصافی اورکیا ہوسکتی ہے؟یہاں کا ہر فرد جانتا ہے کہ جیا بھرولی ندی کس طرح لوگوں کی زمین چھین لیتی ہے۔‘‘انہوں نے مزید بتایا کہ اگر یہ لوگ حقیقت میں بنگلہ دیشی ہیں تو سرکار انہیں پکڑ کربنگلہ دیش بھیج دے ۔اگرنہیں بھیج رہی ہے تو اس کا مطلب کہ وہ ہندوستانی ہی ہیں ۔اب سرکار کو ان کے رہنے کا بندوبست ضرورکرنا ہوگا ۔آج کیمپوں میں رہنے کے سبب ان کے بچوں کےتعلیم سے محروم ہونے کی نوبت آگئی ہے۔آخر یہ کب تک کیمپ میں رہ پائیں گے۔بارش شروع ہوتے ہی ان کا کیمپو ں میں رہناناممکن ہوجائے گا۔

پدما ہزاریکا کون ہیں؟

پدما ہزاریکا سونت پور ضلع کےسوتیا اسمبلی حلقے کی نمائندگی کرتے ہیں ۔پہلےان کا تعلق آسام گن پریشد سے تھا لیکن اب وہ بی جے پی میں ہیں ۔آسام میں وہ اکثر سرخیوں میں رہتے ہیں ۔گزشتہ دنوں گوال پاڑہ اوراطراف کے لوگ جنگلی ہاتھی سے پریشان تھے۔خبروں کے مطابق ہاتھی نے پانچ افراد کی جان لی تھی ۔ مقامی بی جے پی لیڈروں نے اس ہاتھی کا نام ’ اسامہ بن لادن ‘رکھ دیا تھا ۔اس ہاتھی کی تلاش میں پدما ہزاریکا خود بندوق لےکر اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنگل گئے اورہاتھی کو مارا۔ہزاریکا یہ دعویٰ بھی کرچکے ہیں کہ ۶؍ دسمبرکو انہوں نے۵۰۰؍ بنگلہ دیشیوں کو اپنے دم پر نکالا تھا اورانہیں دوڑا کر بھگایا تھا۔

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK