کانگریس نےنائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکر کےاچانک استعفیٰ پر سنگین سوالات اٹھاتےہوئے مودی حکومت میں پارلیمنٹ،عدلیہ سمیت سبھی آئینی اداروں کو غیر
محفوظ قرار دیا، ابھیشیک منوسنگھوی نےپوچھا’’راجناتھ سنگھ کےدفتر میں کس کے مواخذے کیلئے سادے کاغذ پر دستخط کرائے جارہے تھے اوردھنکر نےاستعفیٰ کیوںدیا؟
نئی دہلی میںکانگریس لیڈر ابھیشیک منو سنگھوی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے
نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکر کے اچانک اور حیران کن استعفیٰ پرکانگریس نے بی جے پی کوایک بار پھر سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مودی کی حکومت میں کوئی بھی آئینی ادارہ محفوظ نہیںاور اداروں کو کنٹرول کرنے کی کوشش نائب صدر جگدیپ دھنکر کے استعفیٰ کی وجہ بنی۔قومی راجدھانی میں پارٹی کے صدر دفتر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا رکن ابھیشیک منو سنگھوی نے دھنکر کے اچانک استعفیٰ کے بارے میں بات کرتےہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ جگدیپ دھنکر کے ذریعہ تھوڑی سی آزادی کا مظاہرہ ہی ان کی اصل غلطی تھی، اور کوئی دیگر بات نہیں تھی۔ انہوںنے کہا کہ جب اقتدار کا نشہ حکمران حماعت کو اس مقام تک پہنچا دیتا ہے کہ وہ اپنے ہی راجیہ سبھا کے چیئرمین کو ادارہ جاتی طور پر سبوتاژ کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے،تو جمہوریت اس سے خطرے میں پڑ جاتی ہے۔واضح رہےکہ جگدیپ نےپارلیمنٹ کے جاری اجلاس کے دوران ا ستعفیٰ دیا ہےاورحکومت نے بڑی آسانی سےان کا استعفیٰ منظور بھی کرلیا نیز اس تعلق سے کوئی وضاحت بھی نہیںدی ۔
سنگھوی نےسخت ناراضگی کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ مودی حکومت نے آج دکھادیا کہ کوئی ادارہ محفوظ نہیں ہے، نہ پارلیمنٹ، نہ عدلیہ، حتیٰ کہ ایوان بالا کی کرسی بھی محفوظ نہیں۔انہوںنے اس کو آمریت قرار دیا۔ سنگھوی نے کہاکہ بی جے پی صرف اپنے سیاسی بیانیے کو برقرار رکھنے کے لیے کام کر رہی ہے اور جب اس کا بیانیہ کمزور ہوتا ہے تو پارٹی بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ بی جے پی پارلیمنٹ اور دیگر آئینی اداروں کو کنٹرول کرنے کی مسلسل کوشش کر رہی ہے اور یہ استعفیٰ اسی سلسلہ کا حصہ ہے۔نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکر کے استعفیٰ کا حوالہ دیتے ہوئے سنگھوی نے کہا کہ ان کا اچانک استعفیٰ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔وہ کچھ عرصہ پہلے تک پارلیمنٹ میں عدلیہ کے مسئلہ پر آواز اٹھا رہے تھے۔ انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ اگر لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھی ایسی ہی تجویز آتی ہے تو دونوں ایوانوں کے چیئرمین مشترکہ کمیٹی بنا سکتے ہیں اور اس پر مل کر کام کر سکتے ہیںلیکن اس کے فوراً بعد جگدیپ دھنکر کا استعفیٰ منظر عام پر آگیا۔ کانگریس لیڈرنے کہا کہ یہ خاموشی اپنے آپ میں بہت کچھ کہتی ہے، کیونکہ انہوں نے نہ تو کوئی وضاحت دی اور نہ ہی کوئی سیاسی یا آئینی وجہ بتائی، رسمی طورپر صرف صحت کو سبب بتایا ۔
جگدیپ دھنکر کے استعفیٰ کے پس پردہ سلسلہ واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے کانگریس لیڈر نے کہا کہ مودی حکومت میں مختلف پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلنے کا جذبہ کبھی نہیں رہا۔ اسکے عجیب و غریب فیصلوں کی وجہ ان کا تکبر ہے۔ مودی حکومت کاتکبر جسٹس ورما کےمواخدے عمل میں غلطیوں کا باعث بن رہا ہے۔ قانونی کمیٹی کی تقرری کے معاملے میں اس طرح کے تضادات پیدا کر کے حکومت دانستہ یا نادانستہ جسٹس ورما کو اضافی ہتھیار فراہم کررہی ہے۔یہ واضح ہے کہ عدلیہ کو عوام اور پارلیمنٹ سے کوئی خوف نہیں۔ بلکہ عدلیہ کے اصولوں کو بی جے پی حکومت کی عاملہ سے خطرہ لاحق ہے۔انہوںنے کہا کہ سادہ کاغذ پر دستخط کرنے کی مہم جسٹس یشونت ورما ورما اور جسٹس شیکھریادو کے بارے میں نہیں تھی۔ یہ مستقبل میں تجویز کردہ مواخذے کی تحریک کی تیاری کے لیے تھا۔اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ راجنا ناتھ سنگھ کے دفتر میں کیا ہوا اور نائب صدر جمہوریہ کو استعفیٰ دینا پڑا۔