سڑک کی توسیع موضوع متنازع ہوتا جارہا ہے،عوامی نمائندوں نےبغیر معاوضہ شہریوں کو بے دخل کرنے کو سنگین ناانصافی قرار دیا۔
سڑک کی توسیع کیلئے کی جا رہی انہدامی کارروائی سے متاثر ہونے والےشہریوں نے میٹنگ میں شرکت کی۔ تصویر:آئی این این
میونسپل کارپوریشن کی جانب سے انجور پھاٹاتا سے راجیو گاندھی چوک تک سڑک کی توسیع کے سلسلے میں کی گئی اچانک اور بلا معاوضہ توڑ پھوڑ کے خلاف شہر میں ناراضگی بڑھتی جارہی ہے۔ نگینہ میرج ہال میں منعقد کلیان روڈ بیوپاری و رہواشی سنگھرش سمیتی اور مذہبی مقام بچاؤ ہم آہنگی کمیٹی کی مشترکہ میٹنگ میں بغیر معاوضہ شہریوں کو بے گھر اور بے روزگار کرنے کو اس معاملے کا سب سے سنگین پہلو قرار دیا گیا۔میٹنگ میں شریک سابق اراکینِ اسمبلی عبدالرشید طاہر مومن، روپیش مہاترے، ڈاکٹر وجے کامبلے سمیت متعدد سماجی و سیاسی نمائندوں نے ایک آواز میں کہا کہ شہریوں کی دکانیں، مکانات اور روزگار کو ۲۴؍ گھنٹے کے نوٹس پر منہدم کرنا قانون اور انسانیت دونوں کے خلاف ہے۔ ان کا مؤقف تھا کہ جس کارروائی میں نہ پنچنامہ کیا گیا، نہ متبادل فراہم کیا گیا اور نہ ہی معاوضہ دیا گیا، وہ ’انتظامی زیادتی‘ اور’بنیادی ناانصافی‘ کے زمرے میں آتی ہے۔
مقررین نے واضح کیا کہ اگر میونسپل کمشنر نے اپنی یک طرفہ پالیسی جاری رکھی تو پورا بھیونڈی شہر ایک بڑی تحریک چلانے پر مجبور ہوگا۔ ان کے مطابق شہریوں کی دکانیں اور مکانات ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں منہدم کرنے سے پہلے متاثرین کو قانونی حق کے مطابق مناسب معاوضہ، متبادل جگہ اور وقت دینا ضروری ہے۔ کوئی بھی حکومت یا ادارہ شہریوں کو بے روزگار اور بے گھر کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔اجلاس میں موجود متعدد تاجروں، مکینوں اور مذہبی مقامات کے ذمہ داران نے بھی اپنی فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ انہدامی کارروائی سے کئی خاندان شدید مشکلات کا شکار ہوئے ہیں۔ اگر یہی طرزِ عمل راجیو گاندھی چوک سے کلِیان روڈ اور ٹیم گھر تک بڑھا تو ہزاروں لوگ متاثر ہوں گے۔
سنگھرش سمیتی نے اعلان کیا کہ میونسپل کمشنر انمول ساگر سے تحریری وضاحت طلب کی گئی ہے۔ اگر شہریوں کے حقوق کی پاسداری کے سلسلے میں واضح یقین دہانی نہ ملی تو پورے شہر میں آئینی دائرے کے اندر رہتے ہوئے بڑے پیمانے پر احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔ وہیںشہری حلقوں کا کہنا ہے کہ مسئلے کی اصل سنگینی یہی ہے کہ ’بغیر معاوضہ بے دخلی‘ نے لوگوں کے روزگار اور گھر دونوں کو خطرے میں ڈال دیا ہےاور یہی پہلو اس احتجاجی تحریک کی بنیاد بنتا جا رہا ہے۔