Inquilab Logo

بھیونڈی: اُردومیونسپل اساتذہ کے تبادلے پراسٹینڈنگ کمیٹی کے اراکین اور میونسپل کمشنر آمنے سامنے

Updated: September 18, 2021, 7:19 AM IST | Khalid Abdul Qayyum Ansari | Mumbai

۳؍ کارپوریٹروں نے دعویٰ کیا کہ ’ضلع بدلی‘ میں بدعنوانی کے ٹھوس دستاویزی ثبوت میونسپل کمشنر کو پیش کردیئے گئے ہیں۔۳؍ درجن اساتذہ کو واپس بلانے اور اس معاملے کی اعلیٰ سطحی انکوائری کی تجویز اسٹینڈنگ کمیٹی میں منظور ہونے پر شہریوں کی جانب سے خیرمقدم

Office of the Board of Education of Bhiwandi Municipal Corporation.Picture:Inquilab
بھیونڈی میونسپل کارپوریشن کے ایجوکیشن بورڈ کا دفتر۔ تصویر انقلاب

یہاں میونسپل اردواسکولوں میں  اساتذہ کی کمی کے باوجود ان کی ’ضلع بدلی‘ ( یعنی اساتذہ کے اپنے ضلع یا  اپنی پسند کے اسکول میں  تبادلے)  میں بدعنوانی کا سنگین الزام عائد کرنے والے اسٹینڈنگ کمیٹی کے تینوں اراکین نے ۳؍ صفحات پر مشتمل اپنا  جواب میونسپل کمشنر کو سونپ دیا ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس  بدعنوانی کو افشا کرنے والے ٹھوس دستاویزی ثبوت میونسپل کمشنر کو پیش کردیئے گئے ہیں۔اب فیصلہ انہیں کرنا ہے کہ وہ اساتذہ کے غیرقانونی تبادلے اورشہر سے اردواسکولوں کو ختم کرنے کی سازش میں ملوث محکمہ تعلیم کے افسران کے خلاف کیا کارروائی کرتے ہیں؟  
  اردو سکولوں میں اساتذہ کی کمی کے باوجودشہری  انتظامیہ نے بڑے پیمانے پراساتذہ کی ضلع بدلی کرکے مزید اساتذہ کی ضلع بدلی کیلئے فائلوں کی تیاری شروع کردی تھی۔اس معاملے کو اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن اور کانگریس کے کارپوریٹر ارون راؤت،حلیم انصاری اور پرشانت لاڈ نے سنجیدگی سے لیتے ہوئے اسے۲۷؍اگست کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ کے ایجنڈے میں شامل کروایا اور میٹنگ میں محکمۂ تعلیم کے افسران سے سخت باز پُرس کی۔اراکین نے میٹنگ میں میونسپل انتظامیہ سے ضلع بدلی کی قانونی حیثیت سے لے کر اردو طلبہ، اساتذہ اور کمروں کی تعداد پر پوچھے گئے سوالات کااطمینان بخش جواب نہ دینے پراسٹینڈنگ کمیٹی چیئرمین سنجے مہاترے ،اراکین ارون راؤت، حلیم انصاری، پرشانت لاڈ نے متفقہ طور سے اردواساتذہ کے تبادلے کو منسوخ کرتے ہوئے تقریباً ۳؍ درجن اساتذہ کو واپس بلانے اوراس معاملے  میں بدعنوانی کا سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے  اعلیٰ سطحی انکوائری کی تجویز منظور کی تھی۔ اسٹینڈنگ کمیٹی کے اس تجویز کاشہریوں نے خیرمقدم کیا ہے۔
 شہریوں کو توقع تھی کہ میونسپل کمشنر سدھاکر دیشمکھ اس سنگین الزام پر فوری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دے کر پورے معاملے کی شفافیت سے جانچ کرکے خاطیوں کے خلاف سخت کارروائی کریں گے لیکن انہوں نے الزامات کی تفتیش کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کے بجائے  حیرت انگیز طور پر بدعنوانی کا الزام عائد کرنے والے اسٹینڈنگ کمیٹی کے اراکین کو ہی نوٹس جاری کردیا ہے۔انہیں ۳؍دن میں اپنے الزامات کو ثبوتوں کے ساتھ جواب دینے کیلئے نوٹس جاری کردیاجس میں  اخبارات میں شائع خبروں سے میونسپل کارپوریشن کی بدنامی کا حوالہ دیا گیا ہے۔یہ معاملہ اس لئے بھی سنگین نوعیت کا تھا کہ میونسپل کارپوریشن کی تاریخ میں غالباًپہلی مرتبہ میونسپل کمشنر نے اسٹینڈنگ کمیٹی اور منتخب نمائندوں کو عوامی مفادات کے حق میں آواز اُٹھانے پر نوٹس جاری کیا تھا۔
 اسٹینڈنگ کمیٹی رکن ارون راؤت نے دعویٰ کیاکہ ’’ہم نے میونسپل کارپوریشن کے محکمہ تعلیم کے متعدددستاویزات اور ریاستی حکومت کے جی آر کے حوالے سے میونسپل کمشنر کوثبوت کے ساتھ جواب دیا ہے۔دستاویز اور حکومت کے جی آر کی روشنی میں اس پورے معاملے کو دیکھا جائے تو اس میں بدعنوانی کی بو محسوس کی جاسکتی ہے۔‘‘ان کے مطابق ’’۲۵؍ ستمبر۲۰۱۸ء کو اس وقت کے محکمہ تعلیم کے انتظامی افسر بی ایم موہتے نے  ۱۷-۲۰۱۶ء کی سنچ مانیتا کا حوالہ دیتے ہوئے میونسپل اسکولوں میںاردو اسکولوں کے ۱۰۰؍ اساتذہ کم ہونے کی رپورٹ اس وقت کے میونسپل کمشنر منوہر ہیرے کو دی تھی۔‘‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ’’ ان کے پاس موجود دستاویز کے مطابق اردو پرائمری اسکولوں میں ۵۷۲؍اساتذہ کے منظورشدہ عہدے ہیں ۔ ۲۱-۲۰۲۰ء  میں جاری ٹیچرس کی سینئریٹی فہرست کے مطابق اس وقت۴۹۶؍اساتذہ ہی  میونسپل کارپوریشن کے اردواسکولوں میں درس وتدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیںجن میں۴۴؍اساتذہ کو ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر ترقی  دی گئی ہے۔۴؍اساتذہ سبکدوش اور ۳؍ کی موت ہوچکی ہے جبکہ ۲؍ٹیچر گزشتہ ۱۰؍ برس سے غیرحاضر ہیں۔ گزشتہ ۲؍ برس میں تقریباً ۲۴؍اساتذہ کی ضلع بدلی ہوچکی ہے۔ ایسے میں اب تقریباً ۴۲۰؍اساتذہ ہی اردو پرائمری اسکولوں میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ یہی نہیں میونسپل کارپوریشن کے زیرِ انتظام اردو پرائمری اسکولوں میں ۱۷؍ ہزار۱۳۵؍ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔۲۰۱۹ء میں اس وقت کے میونسپل کمشنر منوہر ہیرے نے ایک ٹیم تشکیل دے کراچانک ہی اسکولوں کا سروے کرکے طلبہ کی گنتی تھی ۔ اس کی رپورٹ کو بطور ثبوت پیش کیا گیا ہے ۔اس رپورٹ میں درج اعدادوشمار کے مطابق میونسپل کارپوریشن کے اردو اسکولوں میں ۱۵۳؍ عہدے خالی ہیں اور ایجوکیشن محکمہ کے یو ڈائس سے یہ بات بالکل واضح  ہورہی ہے کہ میونسپل کارپوریشن کے زیرِ انتظام۴۸؍ اردو پرائمری اسکولوں میں ۴۶۴؍ کمرے ہیں اور مقامی انتظامیہ نے کمرے اور ٹیچرس کے اضافے کے معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں کی بلکہ اضافی ٹیچرس کا حوالہ دیتے ہوئے تمام رپورٹ اور دستاویز کو ایک طرف رکھ کر منظم سازش اور بدعنوانی کرتے ہوئے ٹیچرس کے تبادلے کا کام بڑی ہی خاموشی سے گزشتہ ۳؍ برس سے انجام دیا ہےجبکہ ۱۸؍ستمبر ۲۰۱۹ء کو ۱۱؍ ٹیچرس کا تبادلہ من مانے طریقے سے  بغیر کسی  منظوری کے کیا گیا تھا۔ اس کے  دستاویزات  بھی میونسپل کمشنر کو جواب کی شکل میں بطور ثبوت دیئے گئے ہیں ساتھ میں ریاستی حکومت کے کئی جی آر بھی دیئے گئے ہیں کہ اضافی ٹیچرس ہونے کی صورت میں بیوی شوہر کو یکجا کرنے کیلئے تبادلہ ہوسکتا ہے مگر اسے اولین ترجیح دینے سے انکار کیا گیا ہے۔
 اسٹینڈنگ کمیٹی کے مذکورہ تینوں اراکین نے  بتایا ہے کہ ۳؍ صفحات پر مشتمل جواب کے ساتھ اساتذہ کے ’ضلع بدلی‘ میں  بدعنوانی کو افشا کرنے والے ٹھوس دستاویزی ثبوت میونسپل کمشنر کو دیئے گئے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس دستاویزی ثبوت کی روشنی میں میونسپل کمشنر کو محکمہ تعلیم کے بدعنوان اور اردوکو شہر سے ختم کرنے کی سازش میں ملوث افسران و اہلکاروں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرنے میں تعاون کرنا ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK