امریکی صدر نے کہا کہ روس ابھی سے ہی امریکہ میں آئندہ برس ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں مداخلت کر رہا ہے
EPAPER
Updated: July 29, 2021, 12:48 PM IST | Agency | Washington
امریکی صدر نے کہا کہ روس ابھی سے ہی امریکہ میں آئندہ برس ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں مداخلت کر رہا ہے
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے الزام عائد کیا ہے کہ روس دوبارہ امریکہ میں سازش سرگرمیوں میں سرگرم ہے اور ابھی سے ہی امریکہ میں آئندہ برس ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں مداخلت کر رہا ہے۔ بائیڈن نے کہا کہ ماسکو کے یہ اقدامات ہماری خود مختاری کی خلاف ورزی ہیں۔ ورجینیا میں آفس آف دی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے ہیڈ کوارٹرز میں انٹیلی افسران اور ا ہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئےانٹیلی جنس کمیونٹی کی جانب سے دی گئی بریفنگ کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ روس نے۲۰۲۲ء کے انتخابات سے متعلق ابھی سے ہی غلط معلومات پھیلانا شروع کر دی ہیں۔ صدر بائیڈن نے ملک میں بڑھتے ہوئے سائبر حملوں پر بھی تشويش ظاہر کی۔ بائيڈن کے بقول اگر مستقبل میں امريکہ کسی جنگ کا حصہ بنا تو يہ کسی سائبر حملے کی ہی وجہ سے ہو گا۔ حالات اس جانب جا رہے ہیں جہاں سائبر حملوں کے سنگین نتائج کے طور پر امریکہ کے ایک بڑی قوت کے ساتھ تصادم کا امکان ہے۔ بائیڈن کا کہنا تھا کہ ان کی انتظامیہ ایسے حملوں کا الزام چین کے ہیکرز اور روس کے اندر حکومت کی ایما پرکام کرنے والے ہیکرز پر عائد کرتی ہے۔ بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ روس کے صدر جانتے ہیں کہ معاشی طور پر وہ حقیقی مشکلات سے دوچار ہیں جو ان کو مزید خطرناک بنا دیتا ہے۔ روسی صدر کے پاس صرف جوہری ہتھیار اور تیل کے کنویں ہیں اور کچھ نہیں ہے۔ جو بائیڈن نے امریکی انٹیلی جنس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ امریکی اٹیلی جنس ماسکو کے اداروں کے مقابلے میں برتر پوزیشن رکھتی ہے۔ روسی صدرپوتن جانتے ہیں کہ آپ ان کی ٹیم کی نسبت بہتر ہیں ۔ اس لئے انہیںیہ کمزوری بہت تکلیف دیتی ہے۔
صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں زور دیا کہ انٹیلی جنس اداروں پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چا ہئے کہ کون سی سیاسی پارٹی کانگریس یا وہائٹ ہاؤس میں برسر اقتدار ہے بلکہ یہ ا نتہائی ضروری ہے کہ انٹیلی جنس اہلکار مکمل طور پر آزادانہ انداز میں کسی سیاسی اثر کے بغیر کام کریں۔
امریکہ کے صدر نےچین پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چین کے صدر شی جن پنگ ۲۰۴۰ء تک دنیا کی سب سے طاقت ور فوج اور سب سے بڑی معیشت بننے کیلئے ہر ممکن جدو جہد میں مصروف ہے ۔ ہماری انتظامیہ کے اس کے ہر اقدامات کے خلاف بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بعض ماہرین کے مطابق بائیڈن کی جانب سے اس طرح سنگین الزامات عائد کرنے کے معاملے پر کچھ لوگ سوال اُٹھا سکتے ہیں۔ سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کی انٹرنیشنل سیکور یٹی پروگرام کی ڈائریکٹر ایملی ہارڈنگ کے مطابق کہ جو بائیڈن ملک کے صدر ہیں اور وہ ملک کی سلامتی سے متعلق کسی بھی معاملے پر اظہار خیال کرسکتے ہیں۔ ایملی کا کہنا تھاکہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ بات کسی کیلئے حیرت کا باعث ہو گی کہ روس ۲۰۲۲ء کے انتخابات کے تعلق سے ابھی سے غلط معلومات پھیلانے پر کام کر رہا ہے۔ یہ ہمارے لئے ایک اور واضح یادہانی ہے کہ روس یہ سب کچھ جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ اب تک اس کے اقدامات کو کسی نے نہیں روکا ہے۔
اس معاملے بعض سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی صدر کی انٹیلی جنس کمیونٹی کے ساتھ تال میل استوار کرنے کا ایک مقصد یہ واضح کرنا بھی تھا کہ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی نسبت ان کے ملک کے اہم اداروں کے ساتھ تعلقات کی پالسیسی مختلف ہے۔ واضح رہے کہ سابق صدر ٹرمپ کے انٹیلی جنس کمیونٹی کے ساتھ تعلقات اس وقت خراب ہوئے تھے جب انہوں نے ۲۰۱۶ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کی رپورٹ کو ماننے سے انکار کردیا تھا اور اٹیلی جنس اہلکاروں شدید تنقید بھی کی تھی۔
بائیڈن بھی اپنی انتخابی مہم کے دوران اس معاملے پر ٹرمپ پر زبانی حملے کرتے رہے تھے۔ اس سال ملک کا صدر منتخب ہوتے ہی انہوں نے روسی مداخلت کے خلاف تحقیقات کو تیز کردیا ہے اور بیشتر روسی اداروں پر بھی پابندی عائد کی ہے۔