اس بار مسلمانوں کی نمائندگی میں نمایاں کمی، بی جے پی نے ایک بھی امیدوار نہیں اتارا جبکہ ایم آئی ایم، آر جے ڈی، جے ڈی یو، کانگریس نے محدود ٹکٹ دئیے ہیں۔
EPAPER
Updated: October 26, 2025, 2:20 PM IST | Patna
اس بار مسلمانوں کی نمائندگی میں نمایاں کمی، بی جے پی نے ایک بھی امیدوار نہیں اتارا جبکہ ایم آئی ایم، آر جے ڈی، جے ڈی یو، کانگریس نے محدود ٹکٹ دئیے ہیں۔
بہار اسمبلی الیکشن میں ۲۴۳؍سیٹوں کیلئے ایک جانب بی جے پی نے ایک بھی مسلم امیدوار کو میدان میں نہیں اتارا ہے، جبکہ اسکے اتحادیوں میں جنتا دل (یونائیٹڈ) نے صرف۴؍ اور لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) نے محض ایک مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن پارٹیوں راشٹریہ جنتا دل(آرجے ڈی) نے اب تک۱۸؍ مسلم لیڈران کو اورکانگریس نے۴؍ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے۔ وہیں اسدالدین اویسی کی قیادت والی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین(اے آئی ایم آئی ایم) نے اپنی۲۳؍ امیدواروں کی فہرست میں سے۲۱؍ مسلمانوں کو جگہ دی ہے۔ پرشانت کشور کی قیادت والی جن سوراج پارٹی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ۴۰؍مسلم امیدوار میدان میں اتارے گی، مگر اب تک جاری فہرست میں اتنی بڑی تعداد نظر نہیں آ رہی۔
بہار میں مسلم آبادی اور نمائندگی
مردم شماری۲۰۱۱ء کے مطابق، بہار میں ایک کروڑ۷۵؍ لاکھ ۵۷؍ ہزار۸۰۹؍ مسلمان تھے، جو ریاست کی کل آبادی کا تقریباً ۱۶ء۸۷؍ فیصد ہے۔ جو سیاسی پارٹیاں ’’جس کی جتنی آبادی، اس کی اتنی حصہ داری‘‘ کا نعرہ لگاتی ہیں، وہ بھی اپنی امیدواروں کی فہرست میں ۱۷؍ فیصد مسلم نمائندگی نہیں دے پائی ہیں۔
بی جے پی اور مسلمانوں کی نمائندگی
بی جے پی کا اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے تئیں رویہ جگ ظاہر ہے۔ نمائندگی کے معاملے میں نہ لوک سبھا میں اس کا کوئی مسلم رکن ہے، نہ ہی راجیہ سبھا میں۔ اس لئے بہار میں بھی اس کی مسلم نمائندگی سے چشم پوشی تجزیہ کاروں کو حیران کن نہیں لگتی۔ تاہم، جے ڈی یو کی طرف سے مسلم امیدواروں کا کم ہونا تجزیہ کاروں کیلئے تعجب خیز بات ہے۔ اگرچہ نتیش کمار نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے بعد مسلم برادری میں اپنی مقبولیت کھو دی ہے، لیکن توقع تھی کہ وہ اقلیتی طبقے کو کچھ زیادہ نمائندگی دیں گے۔ مگر ان کی پارٹی نے بھی مسلم ووٹ بینک کو مایوس کیا ہے۔
آر جے ڈی اور مسلم امیدوار
تیجسوی یادو کی قیادت والی آر جے ڈی ہمیشہ خود کو فرقہ پرست سیاست کے خلاف صف آراء پارٹی کے طور پر پیش کرتی رہی ہے، اور اسے مسلمانوں کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔ مگر یہ وہی پارٹی ہے جو کبھی’مائے(مسلم یادو)اتحاد‘ کےلئے مشہور تھی، اور اب اس نے مسلمانوں کو خاطر خواہ نمائندگی نہیں دی۔
پارٹی اس بار۱۴۳؍ نشستوں پر انتخابات لڑ رہی ہے، جن میں سے۵۰؍ سے زیادہ ٹکٹ یادو برادری کے امیدواروں کو دئیے گئے ہیں یعنی ایک تہائی سے بھی زیادہ۔ بہار کی ذات پر مبنی مردم شماری(۲۰۲۲ء) کے مطابق، یادو آبادی۱۴ء۲۶؍فیصد ریاست کی کل آبادی کا۱۸ء۶۵؍ فیصد ہے، یعنی تقریباً ایک کروڑ ۸۶؍لاکھ ۵۰؍ہزار۔ یوں یادو برادری کو اپنی آبادی کے حصے سے کہیں زیادہ، تقریباً۴۰؍ فیصد آر جے ڈی ٹکٹ ملے ہیں، جبکہ مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے کہیں کم ہے۔
سیاسی نمائندگی کے معاملے میں مسلمان پچھڑ رہے ہیں
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بہار کی سیاست میں حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اب کوئی بھی پارٹی اقلیتوں، کمزور طبقات یا محروم طبقات کی فکر نہیں کرتی۔ ایس سی (شیڈولڈ کاسٹ)، ایس ٹی (شیڈولڈ ٹرائب)، ای بی سی (انتہائی پسماندہ طبقات) اور او بی سی (پسماندہ طبقات) سب کی اپنی سیاسی پارٹیاں ہیں، جو انتخابات میں ایک مضبوط قوت کے طور پر ابھری ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے پاس ایسی کوئی متحدہ سیاسی طاقت نہیں ہے۔ نتیجتاً، وہ سیاسی میدان میں اپنی زمین کھوتے جا رہے ہیں۔
(بشکریہ: ڈی این اے)