• Wed, 31 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہار :  پُر جوش پولنگ میں مسلم ووٹنگ کا اہم کردار

Updated: November 13, 2025, 1:58 PM IST | Mumbai

پولنگ فیصد میں غیر معمولی اضافہ کی بنا پر تیجسوی کا اعتماد اور تبدیلی کی اُمید بے جا نہیں، ۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۰ء میں زیادہ پولنگ ہی تبدیلی لائی تھی

Tejashwi Yadav appeared confident of `India`s` victory at a press conference on Wednesday. (PTI)
تیجسوی یادو ’انڈیا‘ کی فتح کیلئے بدھ کو پریس کانفرنس میں پراعتماد نظر آئے۔ ( پی ٹی آئی)

بہار میں دوسرے مرحلے کی پولنگ کے بعد ایگزٹ پول بھلے ہی این ڈی اے کی واضح اکثریت کے ساتھ  واپسی کا اعلان کررہے ہوں مگر ’انڈیا‘ اتحاد پُراعتماد ہے کہ ریاست میں  عوام نے تبدیلی کیلئے ووٹ دیا ہے۔ اس کا اظہار بدھ کو اپنی سرکاری رہائش پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب  میں تیجسوی یادو نے  بھی کیا۔ انہوں نے کہاکہ’’۲۰۲۰ء کے مقابلے اس بار ۷۲؍ لاکھ زیادہ ووٹرس نے ووٹ ڈالے ہیں۔ اگر۷۲؍ لاکھ ووٹوں کو ۲۴۳؍ اسمبلی سیٹوں میں تقسیم کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اوسطاً تقریباً۲۹؍ ہزار ۵۰۰؍ ووٹ ہر اسمبلی حلقہ میں بڑھے ہیں۔ یہ ووٹ نتیش کمار کو بچانے کیلئے نہیںبلکہ حکومت کو بدلنے کیلئے پڑے ہیں۔ اتنے لوگوں نے تبدیلی کیلئے ووٹ کیا ہے۔ بہار کے لوگ سب کچھ سمجھتے ہیں۔‘‘
 تیجسوی یادو کا یہ اعتماد یوں ہی نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ وہ غیر معمولی ووٹنگ ہے،  جس میں مسلم ووٹرس کا کلیدی رول ہے۔  الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق بہار میں۱۹۵۲ء میں ہونے والےپہلے الیکشن سے لے کر اب تک   کےتمام اسمبلی انتخابات میں یہ سب سے زیادہ پولنگ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق دونوں انتخابی مرحلوں میں اوسطاً۶۶ء۹۱؍ فیصد پولنگ ہوئی ہے ،جس میںخاتون رائے دہندگان کی حصہ داری ۷۱ء۶؍ فیصد ہے جبکہ مرد ووٹرس کی شرح ۶۲ء۸؍ فیصد ہے۔اس سے قبل ۲۰۰۰ء میں سب سے زیادہ پولنگ ۶۲ء۵۷؍ فیصد ریکارڈ کی گئی تھی اور اس  سے قبل ۱۹۹۰ء میں ۶۲ء۰۴؍ فیصد پولنگ ہوئی تھی۔ 
 یہی وہ اعدادوشمار ہیں جو تیجسوی کے اعتماد میں اضافہ کرتے ہیں اور این ڈی اے کا خیمہ بھلے اظہار نہ کرے مگر  اس کیلئے اندیشوں  کاسبب بنتے ہیں۔خیال رہے کہ۱۹۹۰ء میں جب زیادہ پولنگ ہوئی تھی تو بہار میں تبدیلی آئی تھی۔ اُس وقت عوام نے کانگریس سے اقتدار چھین کر لالو پرساد یادو (جنتادل) کے حوالے کردیا تھا۔ اسی طرح ۲۰۰۰ء میں جب پھر زیادہ پولنگ ہوئی تو لالو یادو کے زوال کا راستہ ہموار ہوا اور پہلی مرتبہ بطور وزیراعلیٰ نتیش کمار کی حلف برداری ہوئی تھی۔ زیادہ پولنگ کی ایک وجہ مہاجر مزدوروں کی بڑے پیمانے پر ووٹنگ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسری ریاستوں میں مزدوری کرتے ہیں ۔وہ اس بار چھٹھ پوجا کیلئے اپنے وطن گئے تو پھر وہیں رک گئے اور ووٹ دینے کے بعد ہی واپس ہوئے۔ یہ لوگ اپنے وطن سے دور مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، اسلئے موجودہ حکومت سے خوش ہوں، اس بات کی امید نہیں کی جاسکتی۔ 
 تیجسوی یادو کے اعتماد کی دوسری بڑی اور اہم وجہ مسلم اور یادو کے اکثریتی علاقوں میں ہونےوالی زیادہ پولنگ ہے۔ یہ بات بی جے پی بھی جانتی ہے، آرجے ڈی بھی، میڈیا بھی اور انتخابی سروے کرنے والے بھی کہ   ان دونوں ہی طبقوں نے عظیم اتحاد کے حق میں ووٹنگ کی ہے۔

  الیکشن کمیشن کے اعداد وشمار کے مطابق بہار کے ۲۰؍ اضلاع میں دوسرے مرحلے میں ہونےوا لی پولنگ میں سب سے زیادہ پولنگ مسلم اکثریتی ضلع کشن گنج میں ریکارڈ کی گئی۔ یہاں پر ۷۷ء۷۵؍ فیصد پولنگ ہوئی ہے جبکہ سب سے کم پولنگ نوادہ میں ہوئی ہےجہاںمسلمان صرف ۱۱؍ فیصد ہیں۔اسی طرح دوسرے مسلم اکثریتی ضلع ارریہ میں ۷۰ء۷۱؍ فیصد پولنگ ہوئی ہے۔
عظیم اتحاد کی کامیابی کی امید  کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس مرتبہ تقریباً ۲۲؍ لاکھ نئے ووٹرس شامل کئے گئے ہیں اور جنہوں نے بڑھ چڑھ کر ووٹنگ مہم میں حصہ لیا ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو ریاست میں تعلیم کی ابتر حالت، بار بار ہونے والے پیپر لیک کے واقعات اور بے روزگاری سے پریشان ہیں۔ یقینی طورپر اس طبقے کی اکثریت نے حکومت کے خلاف ہی ووٹ دیا ہوگا۔
ایگزٹ پولس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا لیکن اسی ایگزٹ پول والوں نے جو این ڈی اے کو واضح اکثریت دے رہے ہیں، یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بطور وزیراعلیٰ عوام کی پہلی پسندتیجسوی یادو ہیں۔ ’ایکسس مائی انڈیا‘ کے ایگزٹ پول کے مطابق بہار کے بےروزگاروں میں سے ۴۹؍ فیصد نے عظیم اتحاد کو جبکہ۳۴؍ فیصد نے این ڈی اے کو وٹ دیا ہے۔ اسی طرح ۴۸؍ فیصد طلبہ نے عظیم اتحاد کو اور۳۳؍ فیصد نے این ڈی اے کے حق میں ووٹنگ کی ہے۔ انتخابی پیش گوئیوں کے مطابق کسانوں کا پلڑا بھی عظیم اتحاد ہی کے حق میں جھکا ہوا رہا۔   ایسے میں تیجسوی یادو نے کچھ خدشات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ گھر بیٹھ کر ایگزٹ پولس کئے گئے ہیں اور اب پوری کوشش کی جائے گی کہ ووٹ شماری کی رفتار دھیمی ہو۔‘‘  
انہوں نے کہا کہ ’’پچھلی بار بھی  بہار کے رائے دہندگان نے تبدیلی کیلئے ووٹ دیا تھا، لیکن بے ایمانی ہوئی، اس کے باوجود صرف۱۲؍ ہزار ووٹوں کا فرق رہا۔ اس بار بھاری اکثریت سےعظیم اتحاد کی حکومت بننے جا رہی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہاکہ ’’اس بار کاؤنٹنگ میں بے ایمانی نہیں ہونے دیں گے۔ ہمارے لوگ بیدار ہیں اور ڈٹے ہوئے ہیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK