عرب رکن پارلیمنٹ ایمن عودہ اور انتہاپسند وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر کے درمیان سخت تکرار،حمایت میں ۳۹؍ اورمخالفت میں ۱۶؍اراکین نے ووٹ ڈالے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یا ہو پارلیمنٹ سے خطاب کرتےہوئے۔ تصویر:آئی این این
اسرائیلی کنیسٹ (پارلیمنٹ) نے پہلے مرحلے میں ایک بل کی منظوری دی ہے جو فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کی اجازت دیتا ہے۔
ترکی کی خبر رساں ایجنسی ’انادولو‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی نشریاتی ادارے ’کان‘ نے رپورٹ کیا کہ یہ بل پیر کی رات ۱۲۰؍ اراکین میں سے۳۹؍ کی حمایت سے منظور ہوا، بل کے خلاف۱۶؍ ووٹ ڈالے گئے۔
اجلاس کے دوران عرب رکن پارلیمنٹ ایمن عودہ اور انتہاپسند وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر کے درمیان سخت تکرار ہوئی جو تقریباً ہاتھا پائی کی صورت اختیار کر گئی۔یہ قانون سازی بن گویر کی انتہاپسند یہودی پاور پارٹی کی جانب سے پیش کی گئی تھی، ووٹنگ سے پہلے مسودہ قانون کو کنیسٹ کی متعلقہ کمیٹیوں کے سپرد کیا گیا تاکہ اسے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے لئے تیار کیا جا سکے، جو حتمی منظوری کے لئے ضروری مراحل ہیں۔قانون کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی جان بوجھ کر یا لاپروائی کے باعث کسی اسرائیلی شہری کی موت کا سبب بنے اور اس کا مقصد نسل پرستی، نفرت یا اسرائیل کو نقصان پہنچانا ہو، اسے سزائے موت دی جائے گی۔
اس کے ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ایک بار سزا سنائے جانے کے بعد اسے کم نہیں کیا جا سکے گا۔بن گویر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ووٹ کی منظوری کا جشن مناتے ہوئے لکھا کہ ’یہودی پاور تاریخ رقم کر رہی ہے، ہم نے وعدہ کیا تھا اور اسے پورا کیا، دہشت گردوں کے لئے سزائے موت کا قانون پہلے مرحلے میں منظور ہو گیا۔انسانی حقوق کی تنظیمیں طویل عرصے سے بن گویر کے اس قانون کے اقدام کی مذمت کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون خاص طور پر فلسطینیوں کو نشانہ بناتا ہے اورامتیاز کو مزید بڑھاتا ہے۔یہ منظوری ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب فلسطینی عوام اکتوبر ۲۰۲۳ء سے جاری اسرائیل کی ۲؍ سالہ غزہ جنگ کے نتائج بھگت رہے ہیںاور ساتھ ہی مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی مہلک فوجی کارروائیاں جاری ہیں۔اسرائیلی اور فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اس وقت ۱۰؍ ہزار سے زائد فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔جیلوںمیں وہ تشدد، بھوک اور طبی غفلت کا سامنا کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد قیدی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
اسی دوران اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے پیر کو کہا کہ اسرائیل لبنان اور غزہ میں اپنے جنگ بندی معاہدوں پر سختی سے عمل درآمد کرے گا۔ یہ بات انہوں نے اس عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہی کہ جو کوئی ہمیں نقصان پہنچانا چاہے، ہم انہیں نقصان پہنچاتے ہیں۔نیتن یاہو نے پارلیمنٹ میں قانون سازوں کو بتایاکہ ہم ان کے خلاف جنگ بندی معاہدوں کو آہنی ہاتھوں سے نافذ کرنے کے لئے پرعزم ہیں جو ہماری تباہی کے خواہاں ہیں اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لبنان میں ہر روز کیا ہوتا ہے؟
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہونے واضح کیا ہے کہ انہوں نے رفح میں محصور حماس کے جنگجوئوں کی رہائی پر کوئی اتفاق نہیں کیا۔منگل کو نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے رفح میں گرفتار حماس کے مسلح افراد کی رہائی سے متعلق واشنگٹن سے کوئی وعدہ نہیں کیا۔یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی جب’اسرائیل بیتونا‘ پارٹی کے سربراہ اَویگدور لایبرمین نے دعویٰ کیا تھا کہ نیتن یاہو نے امریکیوں سے رفح میں موجود حماس کے جنگجوئوںکو حکومتی منظوری کے بغیر رہا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ لایبرمین نے اس اقدام کو ’مکمل جنون‘ قرار دیا۔ ادھر حماس کے ایک لیڈر نے پہلے بتایا تھا کہ ترکی ثالثوں کے ذریعہ اس معاملے پر سرگرم ہے لیکن اس نے مذاکرات کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا اور کہا کہ یہ ایک انتہائی حساس سیکوریٹی معاملہ ہے۔
دریں اثناءایک اسرائیلی عہدیدار نےبتایا ہے کہ اسرائیل حزب اللہ کو اپنی طاقت دوبارہ بنانے کی اجازت نہیں دے گا۔ ہم اس کے خطرات کو ختم کرنے کے لئے کام جاری رکھیں گے۔ اگر لبنانی فوج حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لئےضروری اقدامات کرتی ہے تو اسرائیل بھی اسی طرح کے اقدامات کرے گا اور ان اقدامات میں امریکہ کے ساتھ مل کر لبنان میں اپنی موجودگی کو بتدریج کم کرنا بھی شامل ہوگا۔یہ اقدامات لبنان ، اسرائیل اور پورے خطے کے لئے زیادہ محفوظ اور مستحکم مستقبل کو یقینی بنائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر لبنانی فوج دریائے لیطانی کے جنوب میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لئے پہل نہیں کرتی ہے تو اسرائیلی فوج ایسا کرے گی۔ ۳؍ لبنانی سیکوریٹی اہلکاروں اور دو اسرائیلی اہلکاروں نے کہا کہ اسرائیل لبنانی فوج پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ جنوب میں ہتھیاروں کے لئے نجی املاک کی تلاشی لے کر حزب اللہ گروپ کے تخفیف اسلحہ کے عمل کو مزید سخت کرے۔