Inquilab Logo Happiest Places to Work

بپن راوت کا متنازع بیان، طلبہ اورتعلیمی اداروں پر تنقید

Updated: January 17, 2020, 4:31 PM IST | Mumtaz Alam Rizvi | New Delhi

ملک کے اولین چیف آف ڈیفنس اسٹاف نے طلبہ کے احتجاج کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی۔ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے امریکہ کی طرح کارروائی کرنے کی وکالت کی۔ سی پی آئی اور کانگریس کی سخت تنقید، کہا: انہیں سیاسی بیان سے گریز کرتے ہوئے خالص فوجی امور پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔

بپن راوت ۔ تصویر : آئی این این
بپن راوت ۔ تصویر : آئی این این

 نئی دہلی:ملک کے پہلے چیف آف ڈیفنس اسٹاف(سی ڈی ایس ) جنرل بپن راوت نے ایک مرتبہ پھر سیاسی بیان دیا ہے۔ انہوں نےطلبہ اور تعلیمی اداروں کو تنقید کرتے ہوئے طلبہ کے احتجاج پر تنقید کی ہے جس پر اپوزیشن کی جانب سے شدید ردعمل ظاہر کیا گیا ہے ۔
  رائے سینا ڈائیلاگ میں دوسرے دن شرکت کے دوران  جنرل راوت نے شدت پسندی اور دہشت گردی کے تعلق سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسکول، یونیورسٹی اور مذہبی مقامات تک میں شدت پسندی کا سبق پڑھایا جا رہا ہے۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے امریکہ کے طرز پر دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کی بات کہی جس پر سوال اُٹھ گئے ہیں۔
  یہاں منعقدہ رائے سینا ڈائیلاگ میں ۸۰؍ ممالک کے ۷۰۰؍ نمائندگان کی شرکت کی۔ جنر راوت نے کہا کہ دنیا کو دہشت گردی سے آزاد کرانے کیلئے دہشت گردوں اور ان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کو امریکہ ہی کی طرز پر شکست دی جا سکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ ہمیں دہشت گردی کو ختم کرنا ہوگا اور ایسا صرف اسی طریقے سے کیا جا سکتا کہ جو طریقہ امریکہ نے نائن الیون کے حملے کے بعد اختیار کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس  سانحے کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ چھیڑ دی تھی جو بہت کارگرثابت ہوا۔
 بپن راوت نے خالص سیاسی لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کیلئے جو لوگ فنڈنگ کرتے ہیں اور ان کا دفاع کرتے ہیں ان کے خلاف بھی سخت کارروائی کی ضرورت ہے ۔ دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ امن سمجھوتے کے سلسلے میں انھوںنے کہا کہ اس طرح کے سمجھوتوں میں امن و چین کو یقینی بنانے کیلئے ان تنظیموں سے گارنٹی لینی چاہئے۔ افغانستان کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ اگر سب کے ساتھ امن کیلئے سمجھوتہ کرنا ہے تو پھر اس بات کو یقینی بناناہوگا۔ طالبان ہو یا دہشت گردی میں شامل کوئی بھی تنظیم انھیں دہشت گردی کے منصوبوں کو چھوڑ کر قومی دھارے کی سیاست میں آنا ہوگا۔
  جنرل بپن راوت سے جب سوال کیا گیا کہ اگر ملک میں شدت پسندی کے خلاف مہم کامیاب نہیں ہو رہی ہو تو دہشت گردی پر قابو کیسے پایا جا سکتا ہے ؟ اس کے جواب میں انھوں  نے کہا کہ شدت پسند بنانے والوں کی شناخت کرتے ہوئے ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان دنوں اسکول اور یونیورسٹی سے لے کر اور مذہبی مقامات تک میں شدت پسندی کا سبق پڑھایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان تمام مقامات میں  جو لوگ شدت پسندی کا سبق پڑھا رہے ہیں،ان کی شناخت کرکے ان کو الگ تھلگ کرنا ہوگا۔ 
 خیال رہے کہ ان کے اس بیان کو ان دنوں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری تحریک کے طور پر دیکھا جارہا ہے جس میں ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلبہ پیش پیش ہیں۔ ان طلبہ کی وجہ سے مرکزی حکومت کو ناکوںچنے چبانا پڑرہا ہے۔ ان طلبہ پر مرکزی حکومت کے وزرا بھی تنقید کرتے رہے ہیں۔ 
  جنرل راوت کے اسی بیان پر سی پی آئی کے قومی سیکریٹری اتل کمار انجان نے سوال اٹھائےہیں۔ انھوں نے فون پر گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ جنرل بپن راوت اپنی حیثیت بھول رہے ہیں اور ہمارے حکمرانوں کی وجہ سے بے لگام ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں صرف فوجی معاملات پر بات کرنی چاہئے ، سیاسی بیانات نہیں دینا چاہئے ۔ انجان نے کہا کہ جہاں تک امریکہ کی طرز پر دہشت گردی کو ختم کرنے کا تعلق ہے تو کیا انھیں علم نہیں ہے کہ امریکہ کیا ہے ؟ وہ کہاں کہاں اور کیسے کیسے اپنی مداخلت کرتا ہے ؟ امریکہ نے لیٹن امریکہ کے ساتھ کیا کیا؟ افریقہ کے اندر کیسی تباہی مچائی؟ امریکہ کے اشارے پر سائوتھ افریقہ میں جو کچھ ہوا؟ کیا وہ بھول گئے ؟ انھوں نے کہا کہ جنرل راوت کیا ہندوستان کو امریکہ کےر استے پر لے جانا چاہتے ہیں ؟ اتل کمار انجان نے کہا کہ جہاں تک دہشت گردی کا سوال ہے تو ابھی تک یہ مدرسوں کو کہہ رہے تھے لیکن اب ان کی نظر میں اسکول اور یونیورسٹی بھی ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ بہت ہی خطرناک بات ہے چنانچہ حکومت کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہئے۔سی پی آئی لیڈر نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو پارلیمنٹ میں جواب دینا چاہئے کہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں دہشت گردی کہاں ہے ؟
  کانگریس کے قومی ترجمان م افضل نے کہا کہ جنرل راوت پہلے بھی متنازع بیان دے چکے ہیں اور ایک بار پھر انھوں نے وہی چیز دُہرائی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ انھیں سیاسی بیان نہیں دینا چاہئے اور فوجی معاملات جو بھی ہیں ان پر نظر رکھنی چاہئے کیونکہ یہ بہت ہی ذمہ داری کا کام ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK