Inquilab Logo

حملہ آوروں سے منسوب شہروں کے نام  بدلنے کی پٹیشن پر بی جے پی لیڈر کی سرزنش

Updated: February 28, 2023, 11:16 AM IST | New Delhi

سپریم کورٹ عرضی خارج کردی اور ڈانٹا کہ کیاآپ ملک میں ہر وقت آگ لگائے رکھنا چاہتے ہیں، سمجھایا بھی کہ کوئی ملک ہمیشہ کیلئے’ ’ماضی کا اسیر‘‘ نہیں رہ سکتا

Justice Nagaratna
رجسٹس ناگرتنا

ملک میں ’’حملہ آوروں‘‘ سے منسوب شہروں کے نام بدلنے کیلئے باقاعدہ ایک کمیشن کے قیام کیلئے سپریم کورٹ  میں  عرضی داخل کرنے والے بی جےپی کے لیڈر اور وکیل اشوینی اُپادھیائے کو پیر کو سخت سرزنش کا سامنا کرنا پڑا۔ جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس ناگ رتنا کی بنچ نے انہیں ڈانٹ پلاتے ہوئے سوال کیا کہ ’’اس طرح کی پٹیشن داخل کر کے کیا وہ ملک میں  ہر وقت آگ لگائے رکھنا چاہتے ہیں؟‘‘ 
 اس کےساتھ ہی دورکنی بنچ نے بی جےپی لیڈر کو سمجھانے کی بھی کوشش کی کہ کوئی بھی ملک یا قوم ’’ماضی کی اسیر‘‘ بن کر نہیں رہ سکتی۔ جسٹس جوزف نے اس بات کو بھی بخوبی سمجھ لیا کہ ’’ظالم غیر ملکی حملہ آوروں‘‘ سے ان کی مراد سے ان کی مراد کیا ہے۔ جسٹس جوزف نے اشوینی اپادھیائے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ کیاآپ اس موضوع کو زندہ رکھ کر ملک میں ہمیشہ آگ لگائے رکھنا چاہتے ہیں؟ایک مخصوص فرقے کی جانب نشاندہی کی جارہی ہے۔ آپ سماج کے ایک طبقے کو نیچا دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے اشوینی اپادھیائے کو یاددہانی کرائی کہ ’’ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور یہ  (سپریم کورٹ ) سیکولرفورم ہے۔‘‘ 
  جسٹس ناگ رتنا نے بھی  پٹیشن پر ناپسندیدگی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہندوازم طرز زندگی ہے،اسی کی وجہ سے ہندوستان سب کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ اسی کی وجہ سے ہم سب مل جل کر رہ رہے ہیں، انگریزوں کی پھوٹ ڈالوحکومت کروپالیسی کی وجہ سے ہمار ے سماج میں فرقہ پرستی نے جگہ بنائی۔ ہمیں ویسے ہی نہ بنیں۔‘‘
 اپنی پٹیشن میں اُپادھیائے نے دعویٰ کیا ہے کہ کئی تاریخی مقامات جن کا ذکر ویدوں اور پرانوں  میں ہے، اب ’’غیر ملکیوں‘‘ سے منسوب ہیں۔ ان کے مطابق’’ہمارے ہاں لودھی، گوری اور غزنوی روڈ ہیں مگر ایک بھی روڈ پانڈوؤں سے منسوب نہیں  ہے حالانکہ اندر پرست کی تعمیر یُدھیشٹر نے کی ہے۔‘‘ انہوں نے ایک اور مثال پیش کرتے ہوئے  اپنی پٹیشن  میں دعویٰ کیا ہے کہ ’’فرید آباد اس شخص سے موسوم ہے جس نے اس شہر کو لوٹا۔‘‘ انہوں  نے حیرت انگیز طور پر اپنی پٹیشن میں سوال کیا ہے کہ ’’اورنگ زیب، غزنی، لودھی اور دیگر کا ہندوستان  سے کیا تعلق؟‘‘ اس پردورکنی بنچ نے  فیصلہ سنانے کا آغاز ہی اس جملے سے کیا کہ ’’انڈیا جو بھارت ہے،    سیکولر ملک ہے۔‘‘کورٹ نے مزید کہا کہ ’’ہم اس نظریہ کے حامل ہیں کہ اس میں قانون کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ کوئی ملک ماضی کا اسیر نہیں رہ سکتا۔ ہندوستان قانونی کی حکمرانی، سیکولرازم اورآئین کی پاسداری کا پابند ہے جس کا آرٹیکل ۱۴؍ سرکاری اقدامات میں مساوات اور انصاف کی یقین دہانی کراتا ہے۔‘‘
 اس سے قبل سماعت کے دوران جسٹس ناگرتنا نے اشوینی اپادھیائے کے  دلائل پر کہا کہ ہندوستان  میں آنے والے غیر ملکی حملہ آوروں  کی تاریخ کومٹایا نہیں جاسکتا۔انہوں  نے  زوردے کر کہا کہ ’’یہ سب کچھ تاریخی حقائق ہیں۔ کیا آپ تاریخ سے اس کو نکال سکتے ہیں؟ ہم پر کئی بار حملے ہوئے؟ کیا ہمارے ملک میں اور کوئی مسئلہ نہیں رہ گیا کہ ہم ان چیزوں کو مٹانے کی کوشش میں لگ گئے ہیں جو ماضی میں  ہو چکی ہیں۔‘‘ عدالت کے رویے کو دیکھتے ہوئے یہ احساس ہوجانے پر کہ عرضی خارج کی جاسکتی ہے، اشوینی اپادھیائے نے اپنی عرضی کو واپس لینے کی اجازت چاہی مگر کورٹ نے  منع کردیا۔ کورٹ نے اسے خارج کرتے ہوئے بی جےپی لیڈر کی سرزنش کی کہ ’’بہتر ہے کہ ہم اس طرح کی پٹیشن کے ذریعہ ملک کو تقسیم نہ کریں۔  اپنے ذہن میں ملک کو  رکھیں مذہب کو نہیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK