تجزکاروں کا کہنا ہے کہ مہاگٹھ بندھن کی جانب سے تیجسوی یادو کو وزیراعلیٰ کا چہرہ بنائے جانے سے این ڈی اے پر دباؤ ہے۔ معروف تجزیہ کار سرور احمد نے کہا: اپوزیشن کا سوال واجب ہے۔
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار۔ تصویر: پی ٹی آئی
اس بار کا بہار اسمبلی الیکشن کئی اعتبار سے تاریخ ساز ہونے والا ہے۔ نتیش کمار اگر اقتدار میں واپسی کرتے ہیں تو یہ تاریخی ہوگا۔ لالو یادو اور ان کی پارٹی راشٹریہ جنتادل کی قیادت میں اگر مہاگٹھ بندھن کو عوام اقتدار سونپیں گے تو بھی یہ تاریخی ہوگا کیونکہ ۲۰؍سال بعد لالو خاندان کی اقتدار میں باضابطہ واپسی ہوگی۔اس طرح نتیش کمار کے سیاسی عہد کا خاتمہ ہوجائے گا۔ دوسری جانب نتیش کمار اگر پھر ابھرتے ہیں تو دسویں بار وزیراعلیٰ کے عہدہ کا حلف لیں گے۔ اس سب کے درمیان اگر ان دونوں سماجوادی پارٹیوں کو پیچھے چھوڑ کر بی جےپی اقتدار میں آتی ہے تو بھی یہ تاریخی واقعہ ہوگا کیونکہ شمالی ہند میں بہار ہی اب تک ایسی ریاست ہے جہاں بی جےپی اپنا وزیراعلیٰ نہیں بناپائی ہے۔ ایک چوتھی صورتحال اگر پیدا ہوتی ہے اور بہار کی سبھی اسمبلی سیٹوں پر اپنا امیدوار کھڑا کرنے والی جن سوراج پارٹی کو عوام فرش سے عرش پر پہنچادیتے ہیں تو بہار کی سیاست کا بہت بڑا تاریخی واقعہ ہوگا۔ ایسے حالات میں مہاگٹھ بندھن کی طرف سے تیجسوی یادو کو وزیراعلیٰ اور وکاس شیل انسان پارٹی کے سربراہ مکیش سہنی کو نائب وزیراعلیٰ کا چہرہ اعلان کئے جانے کے بعد ’مسلمانوں کو اقتدار میں حصہ نہیں دینے ‘ کا سوال سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی گلیاروں اور چوک چوراہوں تک بحث کا موضوع بن گیا۔ سوشل میڈیا پر مصنوعی ذہانت سے تیار کرکے ایک تصویر وائرل کی گئی ۔ اس میں ٹوپی پہنے ایک شخص کو فرش پر بیٹھ کر ’دری‘ ٹھیک کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ تیجسوی یادو اور مکیش سہنی صوفہ پر بیٹھ کر چائے کے مزے لے رہے ہیں۔ اس تصویر کے دوسرے رخ کی طرف توجہ دلانے کے بعد بہت سے لوگوں نے اسے ڈلیٹ کیا اور ایک نئی بحث شروع ہوگئی۔ اسی سلسلے میں ہم نے معروف صحافی اور تجزیہ کار سرور احمد سے بات چیت کی۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ مہاگٹھ بندھن کی طرف سے مکیش سہنی کو نائب وزیراعلی کا چہرہ بنائے جانے پر بہت سے لوگ سوال اٹھارہے ہیں کہ کسی مسلمان کو نائب وزیراعلیٰ کے عہدہ کا امیدوار کیوں نہیں بنایا گیا؟
اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’اپنی قیادت کا شوشہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔‘ یہ سلسلہ ۱۹۸۰ء کی دہائی سے چلا آرہا ہے۔ البتہ اب سوشل میڈیا کی وجہ سے ایسی چیزیں بہت جلدی وائرل ہوجاتی ہیں ۔
سرور احمد نے کہا کہ سوشل میڈیا پر اپنی قیادت کا شوشہ چھوڑنے والے بہت سے لوگ بہار سے ہی نہیں ملک سے بھی باہر رہتے ہیں۔ وہ نہ تو ووٹ دینے آتے ہیں اور نہ ہی انہیں بہار کی سیاست کی زمینی حقیقت کا علم ہے ۔ ایسے لوگ اپنے اپنے طور پر ماحول بنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں لیکن اس سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تیجسوی یادو کو وزیراعلیٰ کا چہرہ اعلان کرکے مہاگٹھ بندھن نے ایک طرح سے این ڈی اے پر سبقت حاصل کرلی ہے لیکن اس اعلان سے ووٹ پر بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ مسلمان مکیش سہنی کو نائب وزیراعلیٰ کے عہدہ کا امیدوار بنائے جانے سے ناراض ہوکر کسی اور کو ووٹ دے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس این ڈی اے کو وزیرداخلہ امیت شاہ کے ایک بیان سے نقصان ہوسکتا ہے کیونکہ ابھی تک بی جےپی کی طرف سے کوئی ایسا بیان نہیں آیا ہے جس سے جے ڈی یو کے لیڈروں اور کارکنوں کا غم وغصہ کم ہوسکے۔ سرور احمد نے ایک نجی ٹی وی چینل کے ساتھ امیت شاہ کی خصوصی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ’پنچایت‘ میں امیت شاہ سے پوچھا گیا تھا کہ اگر این ڈی اے کی جیت ہوتی ہے تو کیا آپ نتیش کمار کو وزیراعلیٰ بنائیں گے؟ اس سیدھے سوال کا جواب امیت شاہ نہیں دیا اور کہا کہ ’ہم کون ہوتے ہیں کسی کو وزیراعلیٰ بنانے والے، اس کا فیصلہ قانون سازیہ پارٹی کے ممبران کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ امیت شاہ کے اس بیان سے جے ڈی یو کے لیڈروں اور کارکنوں میں شدید ناراضگی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امیت شاہ کا بیان اسی طرح بیک فائر کرسکتا ہے جیسے ۲۰۱۵ء میں موہن بھاگوت کے ’ریزرویشن پر نظرثانی ‘ والے بیان نے کیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم مودی نے بھی صرف نتیش کمار کی قیادت میں الیکشن لڑنے کی بات کی ہے۔
تیجسوی یادو کو وزیراعلیٰ اور مکیش سہنی کو نائب وزیراعلیٰ کا چہرہ اعلان کئے جانے سے ’مسلمانوں کی ناراضگی‘ کی بابت معروف صحافی فیضان احمد نے کہا کہ اس سے الیکشن یا پارٹی کی تنظیمی سطح پر بہت فرق نہیں پڑے گا۔
انہوںنے مزید کہا کہ بی جےپی کے لئے این ڈی اے کی طرف سے وزیراعلیٰ کے چہرہ کا اعلان نہیں کرنا مشکل تو ہے لیکن وہ اپوزیشن کے طنز کے ہر تیرو نشتر کو برداشت کرلے گی کیونکہ وہ اس بار اپنا وزیراعلیٰ دیکھنا چاہتی ہے ۔ وزیراعظم نریندرمودی اور وزیرداخلہ امیت شاہ اس مشن میں لگے ہوئے ہیں۔