Inquilab Logo

روس اورطالبان دونوں نے’نیویارک ٹائمز‘کےدعوے کومسترد کردیا

Updated: June 30, 2020, 7:47 AM IST | Agency | Washington

امریکی اخبار نےرپورٹ میںدعویٰ کیا تھا کہ افغانستان میںامریکی فوجیوں کو مارنے کیلئےروس نے طالبان جنگجوئوں کورقم کی پیشکش کی تھی

American Soldiers - Pic :  INN
امریکی فوجی ۔ تصویر : آئی این این

 امریکی اخبار کی اس رپورٹ کو روس اورطالبان نےمستردکردیا ہےجس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ روسی فوجی انٹیلی جنس یونٹ نے طالبان جنگجوؤں کو افغانستان میں امریکی فوجیوں کو مارنے کیلئے رقم کی پیشکش کی تھی۔ ’نیویارک ٹائمز‘ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس حکام کئی ماہ بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ روسی ملٹری انٹیلی جنس نے گزشتہ برس کامیاب حملوں کے بعد طالبان کو انعامات کی پیشکش کی تھی۔رپورٹ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس کے عہدیداروں نےکہا تھا کہ طالبان سے وابستہ جنگجوؤں یا ان کے ساتھ قریبی وابستہ عناصر نےروسیوں سے کچھ انعام کی رقم وصول کی تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا کہ کن حملوں کے بدلے انہیں کتنی رقم دی گئی۔
 تاہم وہائٹ ہاؤس، سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) اور ڈائرکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے دفتر نے ’نیویارک ٹائمز‘کی رپورٹ سےمتعلق عالمی خبررساں ایجنسی کو جواب دینے سے انکار کردیا۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں روسی سفارتخانے نے رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ’بے بنیاد اور من گھڑت‘ قرار دیا۔انہوں نے ٹویٹ میں مزید کہا کہ ’’ان دعوؤں سے واشنگٹن اور لندن میں روسی سفارتخانوں کے ملازمین کی زندگی کو براہ راست خطرہ لاحق ہے۔‘‘دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی ’نیویارک ٹائمز‘ کی رپورٹ کومسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’طالبان کے کسی بھی انٹیلی جنس ایجنسی کے ساتھ اس طرح کےتعلقات نہیں ہیں اور امریکی اخبار کی رپورٹ طالبان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔‘‘  انہوں نے کہا کہ ’’روسی خفیہ ایجنسی کے ساتھ اس قسم کےمعاہدے بے بنیاد ہیں، ہمارے حملے اس سے پہلے برسوں سے جاری تھے اور ہم نےاپنے وسائل سے یہ کام کیا۔‘‘ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’’یہ امریکیوں کے ساتھ ہمارے معاہدے کے بعد تبدیل ہوا اور ان کی زندگی محفوظ ہے اور اب ہم ان پر حملے نہیں کر رہے ہیں۔‘‘
 واضح رہے کہ تقریباً۲۰؍برس تک طالبان سےجنگ کے بعد امریکہ، افغانستان سے انخلا، امریکی حمایت یافتہ حکومت اور ملک کے مختلف حصوں پر قابض جنگجوگروہ کےدرمیان امن کے حصول کی کوششوں کے طریقوں پر غور کر رہا ہے۔رواں سال۲۹؍فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس میں امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا گیاتھا۔امریکی عہدیداران اور ناٹو نے مئی کے اواخر میں کہا تھا کہ اس وقت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب طالبان سے اتفاق کردہ شیڈول سے قبل افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد تقریباً ۸؍ہزار  ۶۰۰؍ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK