Inquilab Logo Happiest Places to Work

۵۰؍فیصد ٹیریف پربرازیل برہم، امریکہ کو جوابی اقدام کا انتباہ

Updated: July 11, 2025, 11:53 AM IST | Agency | Washington

ٹرمپ نےکہا ’’بولسنارو کو رہا کرو یا ٹیریف کا سامنا کرو‘‘برازیلی صدر نے کہا :’’بیرونی مداخلت قبول نہیں کرینگے اور ٹیریف کا شدید جواب دیں گے۔ ‘‘

The series of bitter statements between US President Trump and Brazilian President Lula da Silva is gaining momentum. Photo: INN
امریکی صدر ٹرمپ اور برازیل کے صدر لولا ڈا سلوا کے درمیان تلخ بیانات کا سلسلہ زور پکڑرہا ہے۔ تصویر: آئی این این

امریکی صدر ٹرمپ نے اب برازیل پر ۵۰؍فیصد ٹیریف لگانے کا اعلان کردیا ہے۔ اس اقدام سے برازیل اور امریکہ کے درمیان ٹھن گئی ہے۔ خیال رہے کہ ٹرمپ کے ’ٹیریف وار‘ چھیڑنے سے پہلے ہی عالمی سیاست میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اب تک  میانمار، لاؤس، کمبوڈیا، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، سربیا، انڈونیشیا، بوسنیا و ہرزیگووینا، جنوبی افریقہ، جاپان، قازقستان، ملیشیا، جنوبی کوریا، تیونیشیا، عراق، سری لنکا وغیرہ کو ٹیریف مکتوب بھیجے جاچکے ہیں۔اس طرح کم و بیش ۱۴؍ ممالک کو اب تک امریکہ کی جانب سے ٹیریف کے متعلق خطوط بھیجے جاچکے ہیں۔
برازیل کیخلاف ٹیریف کارروائی کا سبب یہ بتایا
ٹرمپ نے برازیل کے سابق صدر جائر بولسونارو کے ساتھ مبینہ ناروا سلوک اور امریکی پلیٹ فارمز کے خلاف سنسرشپ کی وجہ سے، برازیل سے امریکہ آنے والے تمام تجارتی سامان پر۵۰؍ فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ٹرمپ نے بدھ کو’ٹروتھ سوشل‘ سے جاری کردہ ایک خط میں بولسونارو کے خلاف جاری مقدمے کو ’بین الاقوامی شرمندگی‘ قرار دیا ہے۔ ٹرمپ نے بولسونارو کو ان کے دورِ حکومت کے دوران ’’دنیا بھر میں ایک انتہائی معزز لیڈر‘‘ کہہ کر سراہا تھا ۔ انکے خلاف مقدمے کے متعلق  بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’’یہ مقدمہ ہرگز نہیں چلنا چاہیے تھا۔ یہ ایک انتقامی کاروائی  ہے جسے فوراً ختم ہونا چاہیے!‘‘ بولسونارو اور ان کے ۷؍ ساتھیوں کے، برازیل سپریم کورٹ  کے سابق جج اور ان کے ساتھیوں کے خلاف سرزد کردہ جرائم کا اعتراف کرنے کے بعد، ان پر اقدامِ  بغاوت کے الزام  میں مقدمہ چلایا گیا تھا۔  سپریم کورٹ نے پانچ صفر کے متفقہ فیصلے میں بولسونارو کے خلاف الزامات کو ایک فوجداری مقدمے کیلئے  کافی قرار دیا تھا۔اگر بولسونارو کو مجرم قرار دیا گیا تو انہیں۳۰؍ سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔قبل ازیں ٹرمپ نے ایک کھلے خط میں برازیل کی حکومت پر امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر حملوں اور سابق صدر جائر بولسونارو کے خلاف جاری عدالتی کارروائی کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے۵۰؍ فی صد ٹیکس عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے خط میں کہا کہ نئی۵۰؍ فیصد شرح موجودہ حکومت کی سنگین ناانصافیوں کو درست کرنے کے لیے ضروری ہے،  امریکی تجارتی نمائندے کو برازیل کے ڈیجیٹل تجارتی طریقہ کار کے خلاف سیکشن۳۰۱؍ کے تحت تحقیقات شروع کرنے کا حکم دوں گا، یہ وہی قانونی طریقہ ہے جس کے ذریعے امریکہ ماضی میں درآمدی ٹیکس عائد کر چکا ہے۔
 ٹرمپ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے برازیل کے صدر سلوا نے خبردار کیا کہ’’ اگر برازیلی مصنوعات پر ٹیرف بڑھایا گیا تو اس کا جواب بھی اسی شدت سے دیا جائے گا، برازیل کے عدالتی نظام میں کسی قسم کی بیرونی مداخلت قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘انہوں نے ایکس پر ردعمل کا اظہار کیا اور واضح طور پر کہا کہ برازیل ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے ، جس کے اپنے خود مختار ادارے ہیں۔ ہم کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت قبول نہیں کریں گے۔‘‘ برازیل کے صدر نے یہ بھی واضح کیا کہ سابق صدر بولسونارو کے خلاف جاری قانونی کارروائی مکمل طور پر برازیل کی عدلیہ کے ماتحت ہے اور اس پر کوئی بیرونی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ `بغاوت کی سازش کرنے والوں کے خلاف جاری ٹرائل برازیل کی عدالتوں کا معاملہ ہے اور ان پر نہ تو کوئی خطرہ اور نہ ہی کوئی بیرونی مداخلت متاثر ہو گی۔
 صدر لولا نے یہ بھی کہا کہ برازیل میں اظہار رائے کی آزادی کا مطلب تشدد، جارحیت یا نفرت پھیلانا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ برازیل کسی بھی قسم کی آن لائن نفرت انگیز تقریر، نسل پرستی، بچوں کے ساتھ بدسلوکی یا کسی اور قسم کی زیادتی کو برداشت نہیں کرے گا۔ ملک میں کام کرنے والی تمام کمپنیوں، چاہے وہ برازیلی ہوں یا غیر ملکی، کو برازیل کے قوانین پر عمل کرنا ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK