Inquilab Logo

براؤن یونیورسٹی کا اسرائیلی کمپنیوں کی فنڈنگ ختم کرنے پر غور

Updated: May 02, 2024, 11:44 AM IST | washington

طلبہ نے ایک معاہدہ کے تحت احتجاج ختم کیاجس کے تحت یونیورسٹی انتظامیہ ان کمپنیوں کی فنڈنگ اور دیگر مالی روابط ختم کرنے پر غورکرے گا جن کا تعلق اسرائیلی ملٹری سے ہے ۔

Students at Brown University have been protesting for the past several days. Photo: INN.
براؤن یونیورسٹی میں طلبہ گزشتہ کئی دنوں سے احتجاج کررہے تھے۔ تصویر: آئی این این۔

امریکہ کی براؤن یونیورسٹی کے طلبہ کے پُر زور احتجاج کے سبب یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کے مطالبات تسلیم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس کے بعد منگل کی شام سے یونیورسٹی کیمپس میں احتجاج پر بیٹھے طلبہ اٹھنے لگے لیکن بہت سے طلبہ اب بھی بیٹھے ہوئے ہیں جن کا کہنا ہےکہ انہیں اٹھایاجائے گا تووہ اٹھیں گے۔ مظاہرہ کرنے والے طلبہ اوریونیورسٹی انتظامیہ کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے ا س کے مطابق انتظامیہ نے اشارہ دیا ہےکہ ا دارہ ان کمپنیوں کی فنڈنگ اور دیگر مالی لین دین ختم کرنے پر غورکرے گا جن کا تعلق اسرائیلی ملٹری سے ہے اوراس کیلئے باقاعدہ ووٹنگ کی جائے گی۔ 
امریکہ کی متعدد یونیورسٹیوں میں فلسطین کی پُرزور حمایت میں جاری طلبہ کے ا حتجاج کے درمیان یہ کسی امریکی یونیورسٹی کی طرف دی گئی پہلی رعایت ہے۔ واضح رہےکہ ان مظاہروں نے ملک کے طول و عرض میں واقع تعلیمی اداروں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے لیکن امریکہ کا ایک بڑا طبقہ احتجاج کی حمایت کررہا ہے جبکہ پولیس نےسیکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔ 
ایک بیان میں براؤن یونیورسٹی کی صدر کرسٹینا پیکسن نے کہا کہ طلبہ اس بات پر رضامند ہو گئے کہ وہ اپنا احتجاج ختم کریں گےاورتعلیمی سال کے اختتام تک مزید ایسے اقدامات سے گریز کریں گے جن سے براؤن یونیورسٹی کے ضابطہ ٔ اخلاق کی خلاف ورزی ہو۔ 
انہوں نے بتایاکہ ’’معاہدہ کے تحت ۵؍ اسٹوڈنٹس کو مئی میں کارپوریشن آف براؤن یونیورسٹی کے ۵؍ ممبران سے ملاقات کیلئے مدعو کیا جائے گا تاکہ وہ `غزہ میں نسل کشی کو ممکن بنانے اور اس سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں سے یونیورسٹی کے مالی روابط منقطع کرنے کیلئے اپنے دلائل پیش کریں۔ معاہدے کی خبر سن کر طلبہ مظاہرین نے خوشی سے چھلانگیں لگائیں اور اپنے خیمے ہٹانے سے پہلے’خوف سے نہیں محبت سے، انقطاع قریب آ رہا ہے‘ کے نعرے لگائے۔ براؤن کے طالب علم لیو کورزو-کلارک نے کہا’’ہم یہ جانتے ہوئے (احتجاجی کیمپ) ختم کر رہے ہیں کہ ہم نے براؤن کے (اسرائیل سے) روابط منقطع کرنے کیلئے، اس بین الاقوامی تحریک کیلئے اور فلسطین کے لوگوں کیلئے بہت بڑی فتح حاصل کی ہے۔ ‘‘
مظاہرین میں شامل ایک اور طالب علم سیم تھیوہاریس نے کہا’’ پروویڈنس، رہوڈ آئی لینڈ میں واقع یونیورسٹی ہمارے مطالبات اور اپنے طلباء کو سننے اور جنگ سے، موت سے، قبضے سے علیحدگی اختیار کرنے پر غور کرنے کے لیے میز پر آ گئی ہے۔ ‘‘ کرسٹینا پیکسن نے کہا’’شرقِ اوسط میں ہونے والی تباہی اور جانی نقصان نے کئی لوگوں کو بامعنی تبدیلی کا مطالبہ کرنے پر آمادہ کیا ہے لیکن اشتعال انگیز بیانات میں اضافہ جو ہم نے حال ہی میں دیکھا ہے اور ملک بھر کے کیمپس میں کشیدگی کے بارے میں مَیں فکر مند ہوں۔ ‘‘
فرانس کی سوربون یونیورسٹی میں احتجاج جاری 
پیرس کی سوربون یونیورسٹی کے طلبہ کا غزہ میں اسرائیلی حملوں اور نسل کشی بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے کیمپس میں احتجاج جاری ہے۔ یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبہ، غزہ میں اسرائیل کے حملوں پر ردعمل ظاہر کرنے کے لیے کیمپس میں جمع ہیں ۔ طلباء کا کہنا تھا کہ ہم یہاں فلسطین اور غزہ جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں جمع ہوئے ہیں چاہے اس سے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اتفاق کریں نہ کریں ۔ انہوں نے کیمپس میں نعرے لگائے اورفلسطینی پرچم بھی لہرایا۔ 
وینزویلا کے طلبہ کا احتجاج اور مارچ 
ادھروینزویلا میں بھی یونیورسٹی کے طلبہ جمع ہوئے اور غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے خلاف مارچ کا اہتمام کیا۔ سیکڑوں طلبہ نے فلسطینی اور وینزویلا کے پرچم اٹھائے دارالحکومت کراکس کی سب سے بڑی سڑک پر مارچ کیا۔ اسرائیلی حملوں پر احتجاج کرنے والے طلبہ گروپوں نے فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ 
غزہ جنگ کے مخالف اور حامی طلبہ میں تصادم 
غزہ جنگ کے خلاف اسرائیل اور امریکہ کے خلاف امریکی طلبہ کے احتجاج کے دوران بدھ کو اس وقت معاملے نے نیا رخ لے لیا جب جنگ کی مخالفت کرنے والےطلبہ کا جنگ کے حامی طلبہ گروپ کے ساتھ تصادم ہوگیا۔ امریکہ میں اس طرح کے تصادم اور ٹکراؤ کا پچھلے کئی دنوں سے اندیشہ تھا۔ خصوصاً اس وقت سے جب سرکاری حکام نے اسرائیلی جنگ کے خلاف جاری طلبہ کے احتجاج کو یہود دشمنی سے جوڑنےکی کوشش کی تھی۔ اگرجہ جنگ مخالف مظاہرین خواہ ان کا تعلق کولمبیا یونیورسٹی سے تھا یا کسی دوسری یونیورسٹی سے، انہوں نے شروع سے اپنے احتجاج کے یہود مخالف ہونے کی تردید کی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK