Inquilab Logo

’’اتر پردیش میں بی ایس پی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ‘‘

Updated: February 28, 2024, 9:32 AM IST | Urmilesh | Mumbai

معروف صحافی اُرملیش کا کہنا ہے کہ کانگریس اور سماج وادی کے اتحاد سے عوام میں جوش و خروش بڑھ گیا ہے۔

Journalist Urmilesh. Photo: INN
صحافی ارملیش ۔ تصویر : آئی این این

سماجوادی پارٹی سے اتحاد کے بعد راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا میں اکھلیش یادو بالآخر آگرہ شہر میں شامل ہوئے۔ کافی دنوں سے قیاس آرائیاں ہورہی تھیں کہ اکھلیش کب یاترا میں شامل ہوں گے مگر اکھلیش نے واضح کردیاتھا کہ اتحاد پر حتمی فیصلہ کے بعد ہی وہ یاترا میں شامل ہوں گے۔  ان کی شمولیت کےبعد زبردست بھیڑ امڈ آئی۔  آگرہ کی سڑکوں پر کانگریس کے ساتھ سماجوادی پارٹی کے کارکن بھی اکٹھا ہوگئے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسی بھیڑ آگرہ میں کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ میں۴۰؍ سال سے صحافت کررہاہوں  اور ۳۵ ؍ سال سے الیکشن کوریج کررہا ہوں اس لئے بھیڑ کی بنیاد پر میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے حق میں نہیں رہتالیکن سماجوادی اور کانگریس کے اتحاد کے بعد جو جوش نظر آرہاہےوہ غیر معمولی ہے۔ اس کی مثال نہیں ملتی ۔اس سے قبل ایسا لگ رہاتھاکہ اپوزیشن  کے حوصلے ٹوٹ چکے ہیں مگر اب سب کچھ پٹری پر آتا ہوا نظر آرہا ہے اور ’انڈیا‘ بلاک یوپی میں بی جےپی کو چنوتی دینے کیلئے تیار  ہے۔ اہم یہ ہوگا کہ یہ لیڈر عوام سے خود کو کیسے جوڑتے ہیں۔ 
 بہرحال اس میں ایک اہم پہلو بی ایس پی کا ہے۔ یہ  قیاس لگائے جارہے ہیں کہ انتخابات کی تاریخوں کے اعلان   کے بعد جب  جانچ ایجنسیوں کا خطرہ کم ہوجائےگا تب  بی ایس پی اس اتحاد کا حصہ بن سکتی ہے مگر اس تعلق سے کچھ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا۔ ویسے اگر ایسا ہوجاتا ہے تو بہت بڑی بات ہوگی تاہم امید کم ہی نظر آتی ہے ۔ ایسے میں اکھلیش یادو کی پارٹی اور کانگریس کیلئے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ کس طرح بی جے پی سے لوہا لیںکہ بہوجن سماج پارٹی  کے ووٹروں کو اس کی طرف جانے سے روکیں اور اپنی طرف راغب کریں۔ بی ایس پی کے ووٹروں میں مایاوتی کے تعلق سے ناراضگی ہے ۔ان کے حامی یہ دیکھ کر نالاں ہیں کہ وہ   بی جےپی کی بالادستی قبول کر رہی ہیں، اس کے اقتدار میں ملک میں آئین کے ساتھ، عام آدمی کے ساتھ ، جمہوریت کے ساتھ بلکہ خود بہوجن سماج کے ساتھ  جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے تعلق سے مایاوتی  نے  اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں۔  یہ بات ان کے حامی بہت شدت سے محسوس کررہے ہیں۔ ان میں فکرمندی ہے کہ بی ایس پی کے ووٹ بینک میں  بی جےپی جیسی پارٹی سیندھ لگارہی ہے، وہ پارٹی جو ہندوتوا کی پارٹی ہے ، جس پارٹی کو بی ایس پی کے بانی کانشی رام    براہمن واد کی پارٹی کہتے  تھے، جسے وہ برہمن۔ بنیا گٹھ بندھن کہتے تھے اور ہمیشہ اس پر تنقیدیں کرتے رہتے تھے۔حالانکہ بعد میں جب انہوں نے بی جےپی سے اتحاد کیا تو اس میں کمی آگئی تھی۔

 بہرحال حال کے دنوں میں ان کے جانے کے بعد مایاوتی نے بی جےپی کے اقتدار میں جس طرح آنکھیں بند کرلی ہیں اس سے ان کے حامیوں میں شدید مایوسی ہے۔آگرہ جہاں راہل اور اکھلیش کی ریلی ہوئی، وہاں بھی بی جےپی نے بی ایس پی کے ووٹ بینک میں سیندھ لگائی ہے۔ دلت سماج کے غیر جاٹو ووٹوں کو کم وبیش پوری طرح وہ اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب  ہوگئی ہے۔ افسوس کہ اس محاذ پر کانگریس اور سماجوادی پارٹی نے بھی کوئی کام نہیں کیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ کانپور سے لے کر آگرہ تک بی جےپی کو  زبردست فائدہ ملا۔مشرقی یوپی میں بھی فائدہ ملا مگر اتنا نہیں۔  نتیجہ یہ ہوا کہ مایاوتی کمزور ہوتی چلی گئیں۔ ۲۰۱۹ء میں جب بی ایس پی کا ایس پی کے ساتھ اتحاد ہواتو ان کے تعلق سے اعتماد پیدا ہوا اور  انہیں ۱۰؍ سیٹوں پر کامیابی ملی۔ بی ایس پی نے  ۱۹ء۴۳؍فیصد ووٹ حاصل کیا جبکہ سماجوادی کو ۵؍سیٹیں ملیں اوراسے ۱۸؍ فیصد سے کچھ زائد ووٹ ملے۔  بی جےپی  نے ۴۹؍ فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیا۔ بی ایس پی کو جو  ۱۹؍ فیصد ووٹ ملا اس کی وجہ اتحاد تھا  جو  اَب کی بار اس نے نہیں کیا  حالانکہ گزشتہ ۵؍ برسوں میں اس کی مقبولیت میں اور بھی کمی آگئی ہے۔اس کی وجوہات  سب جانتے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ ۲۰۱۹ء میں  جو ۱۰؍ ایم پی جیتے تھےان میں سے بھی آدھے سے زیادہ اس سے علاحدہ ہوچکے ہیں۔ 
 اس لحاظ سے بی ایس پی کی حالت بہت نازک ہے۔اگر سماجوادی پارٹی اور کانگریس کی جانب سے کوشش ہوتو مایاوتی سے مایوس ہوجانے والے دلت اور پسماندہ سماج کے افراد کو اپنی طرف کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اورانہیں بی جےپی کی طرف جانے سے روک سکتے ہیں۔اگر وہ ایسا کرلیتے ہیں تو بی جےپی کے خلاف بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔   اس کے برخلاف اگر بی جےپی، بی ایس پی کے ووٹوں  میں  مزید سیندھ لگانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو کانگریس اور سماجوادی کا اتحاد محض بھیڑ اکٹھا کرنے سے کامیابی حاصل نہیں کرسکےگا۔  اس طرح یہ کہا جاسکتاہےکہ اس سیاسی اتحاد کی بنیاد پر سوشل اتحاد کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یوپی کی لڑائی دلچسپ ہوسکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK