Updated: June 03, 2025, 10:41 PM IST
| Washington
احمد آباد میں غیر قانونی تجاوزات کے خلاف ایک مہم کے تحت ۸ ہزار ۵۰۰ سے زائد گھروں کی مسماری کے بعد کیئر کا یہ مطالبہ سامنے آیا ہے، جس کے باعث ہزاروں مسلم خاندان بے گھر ہو گئے۔ ریاستی حکام نے دعویٰ کیا کہ یہ کارروائی "غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجرین" کو نشانہ بنانے کیلئے کی گئی تھی، جبکہ متاثرہ افراد کی بڑی تعداد دہائیوں سے وہاں رہائش پذیر تھی۔
کئیر کے نیشنل ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نہاد عواد ۔ تصویر: آئی این این
امریکی مسلمانوں کی تنظیم، کونسل آن امریکن-اسلامک ریلیشنز (سی اے آئی آر) نے وفاقی محکمہ خارجہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے گھروں کی مبینہ مسماری کے بڑھتے واقعات کے بعد اسے "تشویشناک ملک" (Country of Particular Concern) قرار دیا جائے۔ تنظیم کے نیشنل ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نہاد عواد نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ ہندوستان کی انتہائی دائیں بازو کی ہندوتوا حکومت نے مقامی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ ملک میں تشدد اور نسلی صفائی اب زیادہ عام ہوتی جا رہی ہے۔ عواد نے مزید کہا کہ اب وقت آ گیا ہے، محکمہ خارجہ ہندوستان کو "تشویشناک ملک" کے طور پر تسلیم کرے اور مودی حکومت کو مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف تشدد جاری رکھنے سے روکنے کیلئے مناسب اقدام کرے۔
ہندوستان کی مغربی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کے گھروں کی مسماری کے بعد کیئر کا یہ مطالبہ سامنے آیا ہے۔ اس سے قبل، ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ احمد آباد میں غیر قانونی تجاوزات کے خلاف ایک مہم کے تحت ۸ ہزار ۵۰۰ سے زائد گھروں کو مسمار کیا گیا، جس کے باعث ہزاروں مسلم خاندان بے گھر ہو گئے۔ رپورٹ کے مطابق، حکام نے دعویٰ کیا کہ یہ کارروائی "غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجرین" کو نشانہ بنانے کیلئے کی گئی تھی، جبکہ متاثرہ افراد کی بڑی تعداد دہائیوں سے وہاں رہائش پذیر تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اس کارروائی میں خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور کئی ہندوؤں کی ملکیت والی غیر قانونی جائیدادوں کو چھوڑ دیا گیا۔
یہ بھی پڑھئے: مدارس کیخلاف غیر قانونی کارروائیوں پر برہمی
ہندوستانی مسلمانوں پر مظالم میں اضافہ
حالیہ برسوں میں، وزیر اعظم نریندر مودی کے زیر قیادت بی جے پی حکومت کی ہندوستانی مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اپریل میں، پارلیمنٹ نے وقف قانون میں متنازع ترامیم منظور کیں جس کے بعد ملک کے کئی حصوں میں احتجاج شروع ہوئے اور اسے قانونی طور پر چیلنج کیا گیا۔ ہندوستانی مسلمانوں نے اس اقدام کو وقف بورڈز کی ساخت کو تبدیل کرنے، اس پر ریاستی نگرانی بڑھانے اور پہلی بار غیر مسلموں کو وقف اداروں میں تعینات کرنے کی نیت کے طور پر دیکھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت برسوں سے مسلمانوں کی ملکیت والے گھروں اور جائیدادوں کو مسمار کر رہی ہے، جسے وہ اجتماعی سزا قرار دیتے ہیں۔ ہندوستان میں تقریباً ۲۰ کروڑ سے زائد مسلمان رہتے ہیں، جو آبادی کا تقریباً ۱۴ فیصد ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد کو نفرت انگیز جرائم کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ عام طور پر ذات پات کے نظام میں نچلے درجے پر ہیں۔