Inquilab Logo

آر ٹی ای کے تحت زیرتعلیم بچوں کو ہٹایا نہیں جائیگا!

Updated: March 09, 2024, 9:16 AM IST | Saadat Khan | Mumbai

آر ٹی ای ایکٹ میں ترمیم کا فائدہ اٹھاکر کچھ اسکول طلبہ کو ہٹانے پرغورکر رہے ہیں،شکایت ملنے پر ڈائریکٹر آف ایجوکیشن کی سخت ہدایت۔

Under RTE, students are given free education up to 8th standard. Photo: INN
آر ٹی ای کے تحت آٹھویں جماعت تک طلبہ کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ تصویر : آئی این این

 آر ٹی ای ایکٹ میں ریاستی محکمہ تعلیم نے ترمیم کرکے پسماندہ طبقےکےبچوں کیلئے نجی غیر امدادیافتہ انگلش اسکولوں میں پڑھائی کرنے کی سہولت کو پیچیدہ کر دیا ہے۔ترمیم شدہ قانون کے مطابق اگر ایک کلو میٹر کے اندر کوئی سرکاری یا سبسڈی والا اسکول ہے تو آر ٹی ای کے تحت بغیر سبسڈی والے انگلش میڈیم اسکول میں داخلہ نہیں دیا جائے گا۔جس کی وجہ سے ان اسکولوں میں نئے طلبہ کو ایڈمیشن نہیں ملے گا۔ وہیں متعلقہ کوٹے کےتحت ان اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کی آگے کی پڑھائی کامسئلہ بھی سنگین ہو سکتا ہے کیونکہ ان طلبہ کی پڑھائی کیلئے والدین کو اسکول کی فیس اداکرنی پڑسکتی ہے ۔ ایسی صورت میں غریب والدین کیلئے اپنے بچوںکو ان اسکولوں میں پڑھانا مشکل ہوگا۔ ایسی اطلاع موصول ہوئی ہے کہ پونے کے کچھ اسکولوں نے آر ٹی ای کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو ہٹانے کی تیاری شروع کردی ہے۔ ایسے میں ڈائریکٹر آف پرائمری ایجوکیشن شرد گوساوی نے ایک سرکیولر جاری کرکے یہ وضاحت کی ہےکہ اگر والدین متعلقہ اسکول کی فیس ادا کرنے کو تیار ہیں اور طلبہ اسکول میں اپنی مزید تعلیم مکمل کرنا چاہتے ہیں، تو کوئی بھی اسکول آٹھویں جماعت کے بعد بھی طلبہ کو اسکول سے نہیں نکال سکتا ہے۔
 واضح رہے کہ آر ٹی ای ایکٹ میں ترمیم سے متعلق محکمہ تعلیم نے ۹؍فروری ۲۰۲۴ءکو ایک سرکیولر جاری کیا تھا جس کےمطابق ایک کلومیٹر کے اندر کوئی سرکاری یا سبسڈی والا اسکول ہے تو آر ٹی ای کے تحت بغیر سبسڈی والے انگلش میڈیم اسکول میں داخلہ نہیں دیا جائے گا۔اس تبدیلی کی وجہ سے پسماندہ طبقے کےوالدین میں غم و غصہ پایا جارہا ہے۔ تعلیمی تنظیمیں اورسماجی ادارے بھی اس فیصلہ کو منسوخ کرنےکامطالبہ کررہےہیں۔ اس کیلئے ممبئی سمیت ریاست کےدیگر اضلاع میں آندولن کیاجارہاہے۔ اس کے باوجود ابھی تک اس معاملہ میں حکومت کی جانب سے کوئی نیااعلان نہیں کیاگیاہے۔
 انودانِت شکشن بچائو سمیتی کے صدر کے نارائین نے اس تعلق سےانقلاب کوبتایاکہ’’ آر ٹی ای ایکٹ کے تحت نجی امداد اورغیر امداد یافتہ اسکولوں میں جو طلبہ زیر تعلیم ہیں ان کی فیس حکومت اداکرتی ہے لیکن ۲۰۱۷ء سے اسکولوںکو فیس کی رقم نہیں ملی ہے۔ یہ رقم ۲؍ہزار ۴۰۰؍ کروڑ روپے ہے۔ اس ضمن میں ۶؍ مارچ کو ہم نے ریاستی محکمہ تعلیم کے سیکریٹری سے ملاقات کرکے رقم اسکولوں کو ادا کرنے سے متعلق بات چیت کی تھی۔ اس پر انہوںنے کہا تھا کہ حکومت کےپاس فی الحال فنڈ نہیں ہے۔ فنڈ آنے پر اسکولوں کو معاوضہ کی رقم دی جائے گی۔ جس پر کے نارائین کا کہنا ہےکہ جب اسکولوںکو  رقم نہیں ملے گی تو وہ بچوں کو کیوں اورکیسے پڑھائیں گے۔ اسی وجہ سے متعدد اسکول آر ٹی ای کوٹے کےتحت پڑھائی کرنے والے طلبہ پر فیس کی ادائیگی کیلئے دبائو بھی ڈال رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ’’ عموماً جنوری کے آخر یافروری میں آرٹی ای ایڈمیشن رجسٹریشن کی کارروائی کاآغاز کیاجاتاہے لیکن امسال مارچ کا مہینہ جاری ہونےکےباوجودرجسٹریشن سے متعلق کوئی اعلان نہیں کیاگیاہے جس سے یہ شبہ ہو رہا ہے کہ کہیں حکومت آر ٹی ای کے تحت ہونے والے ایڈمیشن کی سہولت ختم نہ کردے۔‘‘
خیال رہےکہ آر ٹی ای کے تحت صرف آٹھویں جماعت تک طلبہ کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ پونے کے ایک اسکول نے اس بارے میں والدین کو خط روانہ کرکے طلبہ کو اسکول سے ہٹانے کی اطلاع دی ہےجس پر مہاراشٹر نو نرمان ودیارتھی سینا نے اعتراض کیا ، اسکول کے خلاف احتجاج بھی کیا اور ڈائریکٹر آف ایجوکیشن سے شکایت بھی کی تھی۔جس کی بنا پر پرائمری ایجوکیشن کے ڈائریکٹر شرد گوساوی نے ایک سرکیولر جاری کیا ہے جس میں اسکولوںکو ہدایت دی گئی ہےکہ اگر کوئی طالب علم آٹھویں جماعت پاس ہونے کے بعد بھی اسی اسکول میں فیس کی ادائیگی کرکے پڑھائی کرناچاہتاہےتو اسے اسکول سے نہ ہٹایاجائے۔ 
 ممبئی ڈویژن میں آر ٹی ای ایڈمیشن کارروائی کے نگراں نثار خان نے انقلاب کو بتایا کہ ’’ابھی آر ٹی ای ایڈمیشن سے متعلق واضح گائیڈ لائن نہیں آئی ہے ۔اب نجی غیر امدادیافتہ اسکولوںکے علاوہ امداد یافتہ، سرکاری ،بی ایم سی اور ضلع پریشد کے اسکول بھی آر ٹی ای میں شامل کئے گئے ہیں۔ ایسےمیں نجی غیر امداد یافتہ اسکول والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہیں اس کوٹے کےتحت داخلہ دینے سے مستثنیٰ کر دیاگیاہے،ایسانہیں ہے،اس لئے ڈائریکٹر آف ایجوکیشن نے ان اسکولوں کو ہدایت دی ہےکہ آر ٹی ای کےتحت جو بچے ان اسکول میں زیر تعلیم ہیں انہیں اسکول سےعلاحدہ نہیں کرناہے۔‘‘  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK