Inquilab Logo

حیدرآباد میونسپل کارپوریشن الیکشن میں فرقہ پرستی کی ہار پر شہریوں کا خوشی کا اظہار

Updated: December 05, 2020, 5:26 AM IST | Saeed Ahmed Khan / Nadeem Asran / Iqbal Ansari | Mumbai

کہا : بی جے پی نے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی لیکن اس کا خواب چکناچور ہوگیا۔ رائے دہندگان نے اسے اس کی اوقات بتادی ہے۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن (جی ایچ ایم سی )کے الیکشن میں بی جے پی نے فرقہ پرستی کا زہر گھولنے کی کوشش کی اور اپنی پوری طاقت جھونک کر میونسپل کارپوریشن پر قابض ہونے کا خواب دیکھا تھا لیکن رائے دہندگان نے اسے چکنا چور کردیا۔ممبئی کے شہریوں نے اس پراپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے اسےفرقہ پرستی پرسیکولرازم کی جیت قرار دیا ہے۔ مورلینڈ روڈ ،نیا نگر کے تاجر محفوظ انصاری نے کہا کہ ’’ بی جے پی نے اس بار حیدر آباد میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ۔ شاید کسی بلدیاتی الیکشن میں پہلی بار ملک کے وزیر داخلہ نے انتخابی ریلیوں میں اتنا بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہوگا ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امیت شاہ کے انتخابی مہم میں حصہ لینے کا فائدہ بی جےپی کو ہوا ہے ۔ امیت شاہ نے نظام کے اثر سے حیدر آباد کو پاک کرنے کا جو فرقہ پرستی والا بیان دیا تھا اس سے ایم آئی ایم کی جیت پرتو کوئی خاص اثر نہیں پڑا لیکن اس کا رائے دہندگان پر اثر ہوا ہے۔ اب اس بات کا ڈر ہے کہ وہاں بھی فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرکے نظم و نسق کو برباد نہ کر دیا جائے ۔
  مدنپورہ کے سماجی کارکن امجد خان کے مطابق ٹی آر ایس اور کانگریس کے امیدواروں کی سیٹوں پر بی جے پی ۴۰؍ سے زائد سیٹیں جیتنے میں کامیاب ضرور ہوئی ہے لیکن اب بھی کارپوریشن میں ٹی آر ایس اور ایم آئی ایم کا ہی طوطی بولے گا اور ان ہی کا میئر اور نائب میئر ہوگا ۔ جہاں تک اپوزیشن کی بات ہے تو پہلےکانگریس کی شکل میں ایک کمزور اپوزیشن ہوا کرتا تھالیکن اب ۴۰؍ سے زائد سیٹیوں پر جیت حاصل کرکے بی جے پی ایک مضبوط اپوزیشن بن کر ابھری ہے۔ اس لئے اب ایم آئی ایم اور ٹی آر ایس کومشکلات ہوں گی ۔
  ناصر خان جو گلبرگہ کے رہنے والے ہیں ، نے کہا کہ ’’لوگ سمجھدار ہیں اور ٹی آرایس اور مجلس اتحادالمسلمین نے وہاں کافی کام کیا ہے اسی لئے لوگوں نے ایک دفعہ پھر انہیں موقع دیا اور بی جے پی کو تمام کوششوں کے باوجود اقتدار سے دور رکھا۔‘‘سماجی خدمت گار وارث علی شیخ نے کہا کہ ’’بی جے پی نے اپنی پوری فوج بلالی تھی اور شاید کارپوریشن کا یہ پہلا ایسا الیکشن تھا جب ملک کے وزیر داخلہ ، پارٹی صدر ،یوپی اور دیگر ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بھی وہاں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے ۔ حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ کورونا وائرس کے سبب عام آدمی کی کیا حالت ہے اور وہ کس قدر پریشان ہے ۔اسی لئے وہاں کے رائے دہندگان نے بھی انہیں ان کی اوقات بتادی اور ان کے منصوبے کو بری طرح ناکام کردیا۔
 شہاب الدین خان نے کہا کہ بی جے پی کو یہ لگ رہا تھا کہ وہ نفرت کی سیاست کے سہارے حیدرآباد میونسپل کارپوریشن پر قابض ہوجائے گی لیکن وہاں کے سمجھ دار رائے دہندگان نے اسے اقتدار سے دور رکھا اور میئر بنانے کی اس کی کوششوں پر پانی پھیر دیا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس تام جھام سے بی جے پی کی سیٹیں بڑھی ہیں لیکن یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ حیدرآباد میں آئندہ بھی اس کی راہ آسان نہیں ہوگی۔
  اس سلسلے ممبرا کے دکاندار مرزا شہزاد بیگ نے کہاکہ ’’گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن الیکشن میں ایک بار پھر رائے دہندگان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ فرقہ پرست پارٹیاں کتنی ہی محنت کر لیں وہاں کے عوام نے وہاں ترقی کے کام کرنے والوں کی حمایت کی ہے۔ خصوصی طور پر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین ( اسد الدین اویسی کی پارٹی) کامیابی کی جانب گامزن ہے۔ ۵؍ سیٹوں کا اضافہ ہوتے ہوئے وہ اپنی دوسری پوزیشن برقرار رکھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ حالانکہ ٹی آر ایس اپنی کچھ سیٹیں گنوا چکی ہے۔ایم آئی ایم اور اسد الدین اویسی کو نقصان پہنچانے کا جو ذمہ بی جے پی کے اعلیٰ لیڈر وزیر داخلہ سے لے کر مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے لیا تھا، وہ اس میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے۔ بلدیہ کے اس انتخابات میں شہری انتظامیہ کے مسائل اٹھانے کے بجائے فرقہ پرستی کا زہرگھولنے کی کوشش کی گئی لیکن رائے دہندگان نےاسے مسترد کر دیا۔اس کیلئے حیدر آباد کے رائے دہندگان مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے سیکولر طاقتوں کو مضبوط کیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK