Inquilab Logo

افغانستان کےمختلف علاقوں میں طالبان اور افغان فوج کے درمیان جھڑپیں، ۵۰؍ ہلاک

Updated: July 23, 2020, 9:54 AM IST | Agency | Kabul

دونوں طرف سے حملوں اور مخالف کی اموات کا دعویٰ۔ طالبان نے قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کو امن مذاکرات کو ٹالنے کا بہانہ قرار دیا، افغان حکومت کا قیدیوں کی رہائی سے انکار

Afghanistan Force - Pic : PTI
افغانستان فورس ۔ تصویر پی ٹی آئی

افغانستان کے مختلف علاقوں میں طالبان اور افغان حکومت کی فوج کے درمیان لڑائی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس طرح کی پر تشدد کارروائیوں کے باعث بین الافغان امن مذاکرات کا راستہ مسدود ہوتا جا رہا ہے۔طالبان اورافغان فوجوں کے درمیان تازہ ترین جھڑپیں جنوبی صوبے قندھار اور زابل میں ہوئی ہیں۔ افغان محکمۂ دفاع کے مطابق، منگل کو ہونے والی ان جھڑپوں کے دوران  تقریباً ۵۰؍ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ دوسری جانب طالبان کا کہنا ہے کہ پیر کی رات کو وردک صوبے میں اس کے ایک خود کش بمبار نے افغان نیشنل آرمی کے ایک منی ٹرک کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔
 طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے میں ۵۰؍ کے قریب سیکوریٹی اہلکار ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ افغانستان کے محکمۂ دفاع کے حکام نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حملے میں۸؍ فوجی ہلاک اور ۹؍ زخمی ہوئے ہیں۔دریں اثنا، طالبان نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے افغان سیکوریٹی فورس کے مزید ۱۶؍اہلکاروں کو رہا کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت ایک ہزار سیکوریٹی اہلکاروں کو رہا کرنا تھا، جن میں سے ۸۶۱؍کو رہا کیا جا چکا ہے، جبکہ افغان حکومت کو ۵؍ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کیا جانا تھا، جن میں ابھی تک تقریا ۴؍ ہزار ۴۰۰؍ رہا ہوئے ہیں۔طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے معاہدے میں افغانستان کی حکومت شامل نہیں تھی۔ چنانچہ وہ بقیہ ۶؍ سوکے قریب قیدیوں کو رہا کرنے میں پس و پیش کر رہی ہے۔
 اسی معاہدے کے تحت مارچ میں بین الافغان امن مذاکرات ہونے  والےتھے، جو قیدیوں کی رہائی نہ ہونے کی وجہ سے التواءمیں پڑے ہوئے ہیں۔ افغان صدر کے ترجمان صدیقی نے بار بار زور دے کر کہا ہے کہ سنگین جرائم میں ملوث طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کیا جائے گا۔ دوسری طرف طالبان کے ایک سینئر لیڈر محمد عمر عمیری نے افغان حکومت کے اس موقف کو غلط اور مذاکرات کو ٹالنے کا بہانہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر قیدیوں کی رہائی کا مسئلہ طے ہو جاتا  ہےتو مذاکرات کبھی کے شروع ہو گئے ہوتے اور ممکن ہے فائر بندی بھی ہو جاتی۔
  واضح رہے کہ طالبان ایک عرصے سے الزام لگا رہے ہیں کہ افغان صدر اشرف غنی غیر ملکی طاقتوں کی ایما پر امن مذاکرات کو ٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔  گزشتہ دنوں اشرف غنی نے یہ بیان دے کر طالبان کے الزام کو تقویت دی کہ کئی غیر ملکی طاقتیں بھی نہیں چاہتیں کہ مذکورہ ۶۰۰؍ قیدیوں کو رہا کیا جائے جن کے نام طالبان نے اپنی فہرست  میں دئیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ غری ملکی طاقتوں کو اس بات کا علم کیسے ہوا کہ طالبان نے اشرف غنی حکومت کو کن قیدیوں کی فہرست دی ہے؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK