Inquilab Logo Happiest Places to Work

کمپریسرمیکانک کا سخت محنت طلب کام مگرروزہ نہیں چھوٹتا

Updated: March 20, 2025, 9:25 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai

۴۴؍ سالہ محمد رفیق شفیع اللہ خان ۲۹؍ برسوں سے انجینئرنگ کے شعبہ میں کمپریسر میکانک کے طور پر انتہائی محنت طلب اور مشقت بھرا کام کررہے ہیں

Muhammad Rafiq Shafiullah Khan at work.
محمد رفیق شفیع اللہ خان کام کرتےہوئے۔

 جوگیشوری میں رہائش پذیر ۴۴؍ سالہ محمد رفیق شفیع اللہ خان ۲۹؍ برسوں سے انجینئرنگ کے شعبہ میں کمپریسر میکانک کے طور پر کام کررہے ہیں جو انتہائی محنت طلب اور مشقت بھرا پیشہ ہے۔ اس کام کی سختیوں، موسم کی مار، روزانہ کا طویل سفر، کاندھوں پر وزنی بیگ اور گرمی کی شدت جیسے حالات کے سبب اس پیشے سے وابستہ بہت سے لوگ روزہ نہیں رکھ پاتے لیکن رفیق کیلئے روزہ چھوڑ دینا تصور کے باہر ہے۔ ذیل میں ان سے کی گئی گفتگو پیش ہے۔
یہ پیشہ آپ کا منتخب کیا ہوا ہے یا موروثی ہے؟
 میرے گھر سے میں تنہا یہ کام کرتا ہوں باقی سب کا پیشہ الگ الگ ہے۔ میں جب زیر تعلیم تھاتو پڑھائی کے ساتھ میرے والد کے ایک دوست کے پاس جاکر ان کے کام میں ہاتھ بٹایا کرتا تھا پھر یہ کام سیکھ گیا اور اسی کو اپنا پیشہ بنالیا۔
کام کتنا محنت طلب اور دشوار ہے؟
 عام طور پر ہمارا کام انڈسٹریئل علاقوں میں ہوتا ہے اس لئے ان جگہوں پر جانے کیلئے روزانہ ۱۰۰؍ کلو میٹر یا کبھی کم یا اس سے زیادہ بھی سفر کرنا پڑتا ہے۔ اگر باہر کام نہ ہو تو اپنی دکان پر چلا جاتا ہوں جو میرے گھر سے ۴۰؍ کلو میٹر دور وسئی میں واقع ہے۔ اس کام میں کمپریسر کی سروسنگ اور مرمت شامل ہوتی ہے اس لئے مرمت کے وزنی اوزار اور عام طور پر جن ’اسپیئر پارٹس‘ کی ضرورت پیش آتی ہے وہ میرے بیگ میں موجود ہوتے ہیں جس کا وزن روزانہ ۱۶؍کلو گرام سے ۳۰؍ کلو تک ہوتا ہے اور اسے لے کر سفر کرنا ہوتا ہے۔ چونکہ بہت سے انڈسٹریئل اسٹیٹ دور دراز علاقوں میں واقع ہیں جہاں پہنچنے اور خاص طور پر واپسی کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں ہوتا اس لئے موٹر سائیکل پر آمد و رفت کرنی پڑتی ہے۔ کبھی دیگر ریاستوں میں جانے کیلئے ٹرین سے سفر کے دوران بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے کسی سے کہئے کہ میرا بیگ اٹھادو تو بیگ اٹھانے پر اس کے چہرے کے تاثرات سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے لئے بیگ کتنا بھاری ہے۔ اس کے علاوہ جس جگہ کمپریسر ہوتا ہے وہاں کا درجہ حرارت ۴۰؍ سے ۵۰؍ ڈگری تک ہوتا ہے اور اسی میں ہمیں کام کرنا پڑتا ہے۔ دوپہر ۱۲؍ بجے سے ۳؍ بجے کا وقت سب سے زیادہ دشوار ہوتا ہے کیونکہ اس وقت دھوپ بھی شدید ہوتی ہے۔ 
روزہ بھاری پڑتا ہے یا کام میں سمجھ میں نہیں آتا؟
 اس کام کو کرتے ہوئے میں روزہ رکھ پاتا ہوں وہ اللہ کا کرم ہے۔ میں اس پیشے سے وابستہ کم از کم ۷؍ لوگوں کو جانتا ہوں جو اس کام کی مشقت کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ پاتے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ جس دن چھٹی ہوتی ہے اس دن مجھے روزہ کا بالکل احساس نہیں ہوتا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کا روزہ میں پورے سال رکھ سکتا ہوں۔ 
  افطار کیلئے کافی وقت مل جاتا ہے یا وہ بھی بھاگم بھاگ میں ہوتی ہے؟
 میں روزانہ فجر کے بعد کام کیلئے گھر سے نکل جاتا ہوں تاکہ جلد کام ختم کرکے جلد گھر پہنچ سکوں جس کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ عام طور پر افطار گھر پر ہوتی ہے اور تراویح بھی نہیں چھوٹنے پاتی۔البتہ کبھی کبھار واپسی میں گھر آتے ہوئے بائیک چلاتے چلاتے ہی افطار کرنی پڑتی ہے۔
 نمازوں کی ادائیگی کا وقت ملتا ہے یا نہیں؟
 چونکہ عام طور پر میں دور دراز علاقوں میں کام کرنے جاتا ہوں جو انڈسٹریئل علاقے ہوتے ہیں اور وہاں ضروری نہیں کہ آس پاس مسجد ہو اس لئے نماز وقت کی پابندی کے ساتھ ادا نہیں ہوپاتی۔ جس فیکٹری وغیرہ میں کام کررہے ہوں وہاں اگر جگہ مل گئی تو نماز ادا کرلیتے ہیں ورنہ کبھی وقت پر اور کبھی دیر سویر سے نماز ادا کرتا ہوں۔
 اتنی مشقت کا روزہ رکھنے پر کیسا محسوس ہوتا ہے؟
 گھر میں ہماری جس طرح کی تربیت ہوئی ہے اور گھر کا جو ماحول ہے اس میں روزہ چھوڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ رمضان ہے مطلب روزہ رکھنا ہے پھر پیشے کی مشقت کی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور چونکہ روزہ فرض ہے اس لئے اس طرح کا کوئی احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم دیگر مسلمانوں سے ہٹ کر کوئی کام انجام دے رہے ہیں۔ پیشے کی دشواریوں کے باوجود روز ہ رکھنے کی تو فیق پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK