Inquilab Logo

کنہیا کمار کو شمال مشرقی دہلی سے اُمیدوار بنا کر کانگریس نے منوج تیواری کی نیند حرام کردی

Updated: April 16, 2024, 12:56 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

دہلی کی ۷؍ لوک سبھا سیٹو ں میں سے صرف یہی ایک سیٹ تھی جہاں بی جے پی اپنے امیدوار کو دُہرانے کی ہمت جٹاپائی تھی لیکن اب یہ سیٹ بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔

Congress candidate Kanhaiya Kumar. Photo: INN
کانگریس کے امیدوار کنہیا کمار۔ تصویر : آئی این این

دہلی میں ’حکومت مخالف رجحان‘ سے نمٹنے کیلئے بی جے پی نے ریاست کے ۷؍ اراکین پارلیمان سے میں ۶؍ کا ٹکٹ کاٹ کر نئے لوگوں کو میدان میں اتارا تھا۔ صرف شمال مشرقی حلقے کے امیدوار منوج تیوار ی کے تئیں اعتماد کااظہار کرتے ہوئے انہیں ٹکٹ دیا گیا تھا لیکن کانگریس نے ان کے سامنے اپنے تیزطرار اور نوجوان لیڈر کنہیا کمار کو ٹکٹ دے کر زعفرانی پارٹی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ 
 اس لوک سبھا حلقے میں اترپردیش اور بہار سے تعلق رکھنے والے رائے دہندگان کی تعداد تقریباً ۲۶؍ فیصد ہے جو بھوجپوری بولتے ہیں۔ بی جے پی کو ایسالگ رہاتھا کہ منوج تیواری کی شکل میں ان کے پاس ایک ایسا لیڈر ہے جو پوروانچل کے اِن ووٹرس پر اپنا جادو چلا سکتا ہے لیکن کانگریس نے کنہیا کمار کو میدان میں اتار کر اس کی حکمت عملی خراب کردی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ کل تک اپنی کامیابی کا دعویٰ کرنے والے بھوجپوری اداکار منوج تیواری کی نیند حرام ہوگئی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: متھرا شاہی عید گاہ کے سروے پر روک میں توسیع

۲۰۱۹ء کے پارلیمانی حلقے میں منوج تیوار ی کو تقریباً ۵۴؍ فیصد ووٹ مل گئے تھے لیکن اس کے بعد ۲۰۲۰ء میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اس کے ووٹوں کی شرح گر کر ۳۳ء۸؍ فیصد پر پہنچ گئی تھی جبکہ اس کے خلاف عام آدمی پارٹی (آپ) اور کانگریس کو مجموعی طور پر۵۶ء۹؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس سے قبل ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا الیکشن میں بھی۴۵؍ فیصد ووٹ لے کر منوج تیواری کامیاب رہے تھے لیکن اُس وقت بھی کانگریس اور عام آدمی پارٹی کو مجموعی طور پر۵۰ء۷؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ بی جے پی کی پریشانی یہی ہے کہ اس مرتبہ ’آپ‘ اور کانگریس متحد ہوکر اس کے سامنے ہیں۔ فی الحا ل اس لوک سبھا کے تحت آنے والے ۱۰؍ اسمبلی حلقوں میں سے ۷؍ پر ’آپ‘ اور ۳؍ پر بی جے پی کا قبضہ ہے۔ 
 یہاں سے کنہیا کمار جی جیت کے امکانات اسلئے زیادہ روشن ہیں کہ اس انتخابی حلقے میں مسلم ووٹرس کا تناسب ۲۱؍ فیصد ہے جس میں کسی بھی طرح کی تقسیم کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ جہاں تک پوروانچل کے ووٹرس کی بات ہے، اس میں دونوں لیڈروں کی حصہ داری برابر ہوسکتی ہے لیکن یہاں پر بھی کنہیا کما ر کا توازن تھوڑا اسلئے بھاری ہے کیونکہ جے این یو لیڈر اور سی پی آئی کے ایک لیڈر کے طورپر ان کا پس منظر مزدروں کی حمایت میں آواز بلند کرنے والے ایک لیڈر رہی ہے۔ 
  خیال رہے کہ پوروانچل کے ۲۶؍ فیصد رائے دہندگان کی اکثریت اُن مزدروں پر مشتمل ہے جو وہاں جھگی جھوپڑیوں میں رہتے ہیں اور مزدوری کرکے گزر بسر کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا طبقہ بی جے پی کی پالیسیوں کا شاکی ہے۔ اسی طرح ۴؍ فیصد پنجابی ووٹرس پر بھی عام آدمی پارٹی کی وجہ سے کانگریس کو فائدہ ملنے کاامکان ہے۔ جہاں تک اپر کاسٹ کے ووٹ کی بات ہے، بی جے پی اور منوج تیواری کی وجہ سے اس کے زعفرانی خیمے ہی میں جانے کی امید ہے۔ خیال رہے کہ اس لوک سبھا حلقے میں ’کمار‘ سرنیم رکھنے والوں کی تعدادبھی ۸ء۵؍ فیصد ہے جن کا جھکاؤ یقیناً کنہیا کمار کی طرف ہوگا۔ 
 اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ۷ء۵؍ فیصد گوجر اور ۱۷؍ فیصد ایس سی اور تقریباً ۲۱؍ فیصد اوبی سی رائے دہندگان کا رجحان کس طرف ہوتا ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK