Inquilab Logo

ڈاکا پروگرام:ٹرمپ انتظامیہ کی عدالتی حکم کی خلاف ورزی

Updated: July 31, 2020, 8:58 AM IST | Agencyw | Washington

ہوم سیکوریٹی کی جانب سے تارکین وطن کی نئی درخواستیں قبول کرنے سے انکار، محکمے کا’ ڈاکا ‘ پروگرام پر نظر ثانی کا فیصلہ،اصول وضوابط میں بھی کئی طرح کی تبدیلی  ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ  نے ایک بار پھر عدالتی حکم کی خلاف ورزی کا فیصلہ کیا ہے۔امریکی محکمه ہوم لینڈ سیکوریٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ بچپن میں امریکه آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری روکنے والے پروگرام کے تحت نئی درخواستیں وصول نہیں کرےگا۔

Donald Trump - Pic : INN
ڈونالڈ ٹرمپ ۔ تصویر : آئی این این

 ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ  نے ایک بار پھر عدالتی حکم کی خلاف ورزی کا فیصلہ کیا ہے۔امریکی محکمه ہوم لینڈ سیکوریٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ بچپن میں امریکه آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری روکنے والے پروگرام کے تحت نئی درخواستیں وصول نہیں کرےگا۔ واضح رہے کہ عدالت نے کچھ دنوں قبل ہی ٹرمپ انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ڈاکا پروگرام کے تحت تارکین وطن کی درخواستیں قبول کرے۔   ’ڈاکا‘( ڈی اے سی اے)نامی اس پروگرام کے تحت ایسے غیر قانونی تارکین وطن کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے ، جو بچپن میں اپنے تارکین وطن والدین یا کسی اور کے ساتھ امریکہ آئےتھے۔ہوم لینڈ سیکوریٹی کے قائم مقام وزیر چاڈ وولف نے ایک سرکاری مراسلے میں لکھا ہے کہ وہ بچپن میں امریکہ لائے گئے افراد کے بارے میں زیر التواڈاکا پروگرام پر نظر ثانی شروع کر وا رہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ اس دوران نئی درخواستوں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان کی ایجنسی اس پروگرام میں شامل موجودہ افراد کو اس بات کی اجازت دے گی کہ وہ اپنے قیام اور ورک پرمٹ کی مدت میں ایک سال کی تجدید کروا سکتے ہیں۔ پہلے یہ توسیع دو سال کیلئے ہوا کرتی تھی۔
 تیسری پابندی یہ لگائی گئی ہے کہ موجودہ شرکاء کو سفر اور امریکہ دوبارہ آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ صرف خاص حالات میں اس کی اجازت دی جائے گی۔ واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے ’ ڈاکا‘  پروگرام کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی،مگر پچھلے ماہ سپریم کورٹ نے ایک حکم کے ذریعے یہ کہہ کر تارکین وطن کے بچوں کی درخواستیں قبول کرنے کا حکم دیا تھا کہ  ٹرمپ انتظامیہ نے  اس  معاملے میں مناسب طے شدہ ضابطوں کی پیروی نہیں کی۔ یہ پروگرام ۲۰۱۲ء میں سابق امریکی صدر  بارک اوبامہ نے نافذ کیا تھا۔اس وقت امریکہ میں تقریباً ساڑھے ۶؍ لاکھ افراد’ ڈاکا‘پروگرام سے مستفید  ہونے والے ہیں۔
   اس پروگرام میں شامل ہونے کے لئے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ تارکین وطن کے بچے ۲۰۰۷ء  کے وسط سے پہلے امریکہ آئے ہوں اور اس وقت ان کی عمر ۱۶؍ سال سے کم ہو ۔ اس کے بعد وہ ۲۰۱۲ء کے وسط تک مسلسل امریکہ میں مقیم ہوں۔ اہلیت کے لئے یہ بھی لازم تھا کہ انہیں کسی جرم پر سزا نہ ہوئی ہو اور وہ قومی سلامتی کے لئے خطرہ نہ بنے ہوں۔ ان افراد کے لئے لازم تھا کہ ان کے پاس کسی اسکول کا ڈپلومہ ہو یا انہوں کسی اسکول میں داخلہ لے رکھا ہو یا پھر انہوں نے فوج میں ملازمت کی ہو۔
 اوبامہ انتظامیہ کا موقف تھا کہ اس معیار پر پورا اترنے والوں کو قانونی امیگریشن کا حق ملنا چاہئے۔ کیونکہ یہ لوگ بچپن میں امریکہ آئے تھے ، اس لئے یہ امریکہ کو ہی اپنا وطن سمجھتے ہیں اور یہ اپنی مرضی سے غیر قانونی طور پر امریکہ نہیں آئے تھے۔ قائم مقام وزیر وولف نے اپنے سرکاری مراسلے میں لکھا ہے کہ کانگریس نے بھی اس مسئلے پر کچھ نہیں کیا ، جبکہ انہیں اس کے مستقل حل کے لئے معقول وقت میسر تھا۔منگل کو ہی محکمہ ہوم لینڈ سیکوریٹی کے ایک اعلیٰ اہل کار نے نیوز بریفینگ میں کہا تھا کہ محکمہ نظر ثانی کے لئے مناسب وقت لے گا اور اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کارروائی کب تک مکمل ہو گی۔ایوان کی انصاف کی کمیٹی کے چیئر مین اور امیگریشن اور شہریت کی ذیلی کمیٹی کے سربراہ نے ایک مشترکہ بیان میں سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کے اراکین سے کہا ہے کہ وہ امیگریشن اصلاحات کےاس بل کے مسودے پر جلد از جلد کارروائی کریں جسے ایوان نمائندگان کی اکثریت نے منظور کر رکھاہے ۔دی نیشنل امیگریشن لا ءسینٹر نے کہا ہے کہ امیگریشن کے منتظر خاندانوں میں  ایک ایسے وقت میں خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے جب یہ کمیونٹی پہلے ہی کورونا کی وجہ سے متاثر ہے۔گزشتہ دنوں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہم ڈاکا پروگرام پر کام کر رہے ہیں ، اس کے ساتھ امیگریشن بل پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ہم اہلیت کی بنیاد پر ایک نظام لانا چاہتے ہیں۔ میری طویل عرصے سے ایسا کرنے کی خواہش تھی۔ لیکن ہوم لینڈ سیکوریٹی  کے تازہ حکم سے لگتا نہیں ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کا ارادہ وہی تھا جو  انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK